آرمی چیف کی تعیناتی: سیاسی نہیں آئینی معاملہ ہے

آرمی چیف کی تعیناتی: سیاسی نہیں آئینی معاملہ ہے

گولیوں کی تڑتڑاہٹ، گلے میں مرچیں، ناک اور منہ سے داخل ہو کر دم گھوٹتی آنسو گیس اور اُس کی ناپسندیدہ بدبو سے میری شناسی سکول کے زمانے سے ہے۔ جی سکول کے زمانے سے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ میں کوئی پیدائشی جمہوریت پسند ہوں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ شناسائی چل کر میرے پاس آئی اور پھر میں عمر بھر اس سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔ یہ 1977 کی بات ہے جب پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن دھاندلی کی تحریک چلا رہا تھا۔ انتہائی جناتی اور قدآور سیاسی قائدین بھٹو کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے۔ روزانہ لوہاری کی مسلم مسجد، انارکلی، نیلا گنبد، بھاٹی چوک اورمال روڈ میدان جنگ بنے ہوتے تھے۔ مظاہرین پر چلنے والی گولیوں کی آواز اور آنسو گیس ہمارے گھروں تک ضرور پہنچتی تھی۔ ایک دن آبکاری روڈ سے لوہاری دروازے کی طرف آتے ہوئے نیو انارکلی جالندھر سویٹ کے پاس پہنچا تو مظاہرین پر چلنے والی گولیوں سے اٹھنے والے کہرام نے دل ہلا کر رکھ دیا۔ یہ منظر ابھی تک میرے ذہن کی مومی تحتی پر منجمد ہے۔ والدہ نے مجھے دوبارہ پُرامن حالات تک کبھی ٹیوشن نہیں جانے دیا اور پھر دیکھتے دیکھتے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک کب اور کیسے نظام مصطفےٰ ؐ کی تحریک میں بدل گئی کچھ سمجھ نہ آیا۔ سمے کا پنچھی براق کی رفتار سے اپنی منازل طے کرتا ہوا مجھے سکول سے کالج، کالج سے جیل، جیل سے یونیورسٹی اور پھر سیاست کی خاک چھاننے کے بعد صحافت کے سُرابی صحرا سے گزارتا ہوا زندگی کے اس موڑ تک لے آیا جہاں پڑھنے سے زیادہ لکھنے پر طبیعت مائل ہوتی ہے۔ زندگی کے اس طویل سفر میں مجھے کسی کتاب یا استاد سے اس بات کا جواب نہ مل سکا کہ الیکشن میں دھاندلی کی تحریک نظام مصطفےٰؐ کی تحریک میں کیسے بدل گئی۔ البتہ مختلف کتابوں سے ملنے والے شواہد نے مجھے اس حقیقت تک پہنچانے میں مدد ضرور کی کہ یہ وطن داخلی نہیں خارجی حقیقت ہے۔ جنرل ایوب خان کا ساتھ دینے والوں کو آخر کار ایوب خان سے ہی پوچھنا پڑا کہ ”کیا میں صبح تک زندہ رہوں گا؟“۔ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو مقتول کو گود لیا لیکن سیاست کے بے رحم جنگل میں صرف طاقتور ہی زندہ رہتے ہیں جب بھٹو طاقتور ہوا تو وہ معاہدہ تاشقندکی بلی تھیلے میں ڈال کر اپنے خاکی محسن ایوب خان کے خلاف عوام کی طاقت لیے سٹرک پر تھا اور پھر جنرل ایوب خان کو بھی گھر جانا پڑا لیکن جانے سے پہلے ایوب خان اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر گیا جو آئینی طور پر اُسے محمد مالک کے سپرد کرنا تھا لیکن اُس کا بنگالی ہونا ایوب خان کو قابلِ قبول نہیں تھا۔ یحییٰ خان پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا بدترین کردار ہے گو کہ سقوط ڈھاکہ کے اسباب پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی وجود میں آ گئے لیکن فوری طور پر جنرل یحییٰ 
کے عسکری اور سیاسی فیصلوں نے پاکستان دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُس نے منصفانہ انتخابات کرائے لیکن اپنے ہی کرائے ہوئے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو گیا۔ اُس نے اکثریت کے نمائندے کو گرفتار اور اقلیت کے نمائندے کو کھلا چھوڑ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مقتول سے تمام تر محبت کے باوجود تاریخ میں کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ بد سے بدترین مورخ بھی اُن سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتا۔ یحییٰ خان کی ایک ”عظمت“ یہ بھی ہے کہ پاکستان دو ٹکرے ہونے کے باوجود وہ ”عظیم جرنیل“ بچے کھچے 
پاکستان سے جانے کیلئے تیار نہیں تھا بلکہ نیا آئین لکھوا کر پاکستان پر مسلط ہونا چاہتا تھا۔ بھٹو مقتول نے بچ جانے والے پاکستان کو بہت کچھ دیا لیکن بھٹو مقتول کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ دانش کے حوالے سے سوشلسٹ، عقیدے کے اعتبار سے مسلمان اور رویے کے اعتبار سے جاگیردار تھے اور اُس کا رویہ اُس کی پہلی دونوں خوبیوں کو نگل گیا۔ اُس نے ضیاالحق کو کمزور انسان سمجھ کر آرمی چیف لگایا لیکن بھٹو یہ بھول گئے کہ جس کے پاس طاقت ہو وہ مصلحت پسند یا بزدل تو ہو سکتا ہے کمزور کبھی نہیں ہوتا۔ جونیئر ترین جرنیل کو آرمی چیف بنانے کے باوجود بھٹو کو ایک دن اُسی کے زیر عتاب رہنا پڑا لیکن گرفتار بھٹو زیادہ خطرناک ثابت ہوا اور وہ پھانسی پر جھول کر بھی اپنے حریفوں کے ہاتھوں نہ مر سکا۔ بھٹو مقتول سے ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ بھٹو اور اُس کا خاندان اس قوم کا رومانس رہے ہیں گو آج پیپلز پارٹی کے اقتدار کے سورج کی کرنوں کا دائرہ صرف سندھ کی سرزمین تک محدود ہو گیا لیکن پاکستان کے کسی بھی بڑے سے بڑے لیڈر کی جرأت نہیں کہ وہ بھٹو مخالف نعرہ لگا کر عوامی مقبولیت حاصل کر سکے۔ بھٹو کا اس قوم پر بہرحال یہ احسان ضرور ہے کہ اُس نے اس بے آئین سرزمین کو ایک آئین بخشا۔ اُس کے آئین کی کئی شقوں سے بھی اختلاف ممکن ہے لیکن پاکستان کا وفاق آج بھی اُس کے آئین کی زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ ضیاالحق کی موت کے بعد پاکستان کا اقتدار باری کے بخار کی طرح پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے حصے میں آتا رہا۔ سب نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھا، اپنے اپنے دیوتاؤں کی حمد و ثنا کے گن گائے اور اپنے اقتدار کو اتنی دیر تک طوالت بخشوا لی جب تک اُن کے آقاؤں کی مرضی تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار نکال دیں تو ہر کہانی ادھوری، ہر مجسمہ نامکمل اور ہر سانحہ اور واقعہ بے رنگ اور ناقابلِ فہم سا ہو جاتا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف کی سیاست کو میں ہمیشہ دو زمانوں میں تقسیم کرتا ہوں: قبل از اکتوبر 2011 بعد از اکتوبر 2011۔ یہی سب سے بڑا سچ 
ہے۔ عمران خان آج گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اُن کی پارٹی کے لوگ انہیں بتائے بغیر اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں لیکن جنابِ چیئرمین! یہ کرائے کے ٹٹو تو آپ کی پیروی کر رہے ہیں آپ بھی ساتھیوں کو بتائے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں تھے۔ آپ نے تحریک انصاف سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں وعدہ کیا کہ مشرف کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن آپ خاموشی سے ریفرنڈم میں چلے گئے۔ آپ نے جنرل حمید گل کو اپنا رول ماڈل بنایا، آپ نے جنرل پاشا سے رابطہ رکھا، آپ نے جنرل ظہیر السلام سے خفیہ پیغام رسانی رکھی، آپ نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن نہ دینے کا وعدہ کیا لیکن پھر کہا ملک حالت جنگ میں ہے۔ آپ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ایک پیج پر ہے اور جنرل باجوہ بہترین جمہوریت پسند جرنیل ہے لیکن وہی باجوہ آپ کیلئے میر جعفر و میرصادق بنا، نیوٹرل بنا، جانور بنایا گیا اور جب تمام دروازے بند ہو گئے تو آپ نے قلندرانہ نعرہ بلند کیا کہ جنرل باجوہ کو ایک سال کی ایکسٹینشن دی جانی چاہیے کیونکہ آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگلا الیکشن جیت کر آپ اپنی مرضی کا ضیاالحق لگائیں گے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند عوام کی کسی جرنیل سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی صرف آئین کو توڑنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عوامی مقبولیت حاصل نہ کر سکے۔ پاکستان کا آرمی چیف لگانے کا آئینی اختیار پاکستان کے وزیر اعظم کے پاس ہے اور پاکستان میں کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ آئین سے متضاد یا متصادم مطالبہ ریاست کے سامنے رکھ کر قوم کو گمراہ کرے۔ جس بنیاد پر آئین توڑنے والے جنرلز پاکستانی عوام کے ہیرو نہیں بن سکے، اُن کے حقیقی اور منہ بولے بیٹے اُن کا ساتھ چھوڑ گئے اُسی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کی تکریم کیسے کی جا سکتی ہے؟ پاکستان کے عوام اگر آپ کو دو تہائی اکثریت دیتے ہیں تو آپ خواہ سارا آئین بدل دیں بھلا کس کو گلہ یا شکایت ہو سکتی ہے لیکن اس کیلئے ہمیں اُس حصار سے نکلنا ہو گا جو آپ کے گرد آج بھی ہے۔ جنابِ عمران خان صاحب آپ کے اردگرد اسٹیبلشمنٹ کے تنخواہ دار ہی بیٹھے ہیں۔ آپ کو اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیشہ کہا کہ ایک مضبوط تنظیم ہی انقلاب کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ غیر تربیت یافتہ نوجوان جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں لیکن کسی انقلاب کا کوئی نقشہ تو آپ کے اپنے پاس نہیں بھلا ان معصوموں کے پاس کہاں سے آئے گا۔ انقلاب صرف اسٹیبلشمنٹ کا اپنے عوام کے سامنے ہاتھ اٹھانے کا نام ہے اور نہ آپ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں، نہ ہی یہ آپ کی خواہش میں شامل ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ نیوٹرل صرف آپ کیلئے نیوٹرل نہ رہیں۔ یہ انقلاب نہیں رد انقلاب ہے۔ سیلاب میں غرقاب قوم اور دہشت گرد سیلاب کی تباہ کاریاں کسی بڑے انسانی المیے سے پاکستان کو دوچار کرنے کیلئے مچل رہی ہیں لیکن آپ اپنے سیاسی ورکروں کو قومی خدمت کے بجائے اقتدار کی غلام گردشوں کی طرف روانہ کر رہے ہیں۔ کاش! آپ کے ٹائیگرز گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور آنسو گیس کی بدبو سے واقف ہوتے لیکن افسوس! ایسا نہیں ہے۔

مصنف کے بارے میں