تھوڑا کمانے والے سیاست دان

 تھوڑا کمانے والے سیاست دان

وطنِ عزیز میں سیاسی دہشت گردی عُروج پر ہے ۔ایوانوں میں ہر شخص اپنی ایمانداری کے بم پھوڑ رہا ہے ۔ہرجگہ معصومیت اوربے گناہی کی صدائیں بُلند ہو رہی ہیں اور عوام اپنے قومی حقوق کی سر بریدہ نعشیں اپنے ہی کاندھوں پر اُٹھائے کسی حقیقی رہنما کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ 

جا ہل اور عاقل لوگو ں کے درمیان غیر اہم مو ضوعات پر بحث جاری ہے ۔

عاقل وہ جن کے چہروں کی شکستہ جھریوں میں نظامِ حکومت کی بے رحم خراشیں دفن ہیں ۔جن کے لبوں کا لرزنا بے وجہ نہیں ۔جنھوں نے اپنے کمزور کا ندھوں پر جبری تسلط کی نعشیں اُٹھا ئی ہوئی ہیں ۔جن کی اولادیں وقت سے پہلے جوان ہو کر سوالیہ نشان بن چُکی ہیں ۔دوسری طرف جا ہلوں کا ٹولہ ہے جن کے چہرے پر معاشی تفکر نے اپنے نشان نہیں چھو ڑے،جن کے ہونٹوں پر ،وقت کے ظالم اور غاصب حکمرانوں کے لیے داد و تحسین کے چشمے پھو ٹتے ہیں ۔جن کے مظبوط کاندھوں نےکبھی بے نام نعشوں کو کاندھا تک نہیں دیا ۔جن کی اولادیں پیدا ہو نے سے قبل ہی اعلیٰ عہدوں کے لیے نامزد کر دی جا تیں ہیں  اور جن کے اسلاف حکمرانوں کی غلامی کے احساس میں مُقیدہونے کے باوجود حکمرانوں کی طرح جیا کرتے ہیں ۔

قوم کی اخلاقی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ وہ سیاست دانوں کا موازنہ کرتے ہوئے کسی ایک سیاستدان کے بارے میں اپنی رائے کچھ اس طرح دیتے ہیں

"یار انہوں نے چلو تھوڑا ہی کھایا ہے باقی سب تو لُٹیرے تھے"۔

یعنی ہم اخلاقی پستی اور احساسِ کمتری کی اس کم ترین سطح پر پُہنچ چُکے ہیں جہاں ہمیں "تھوڑا کھانے والے سیاست دان" نیک اور پارسا لگتے ہیں ۔اس قوم کے ذہنوں میں اس سوچ کا در کُھلنا نہ صرف خطرناک دراصل لمحہ فکریہ ہے ۔جنگل کا با دشاہ شیر، شکار کرنے کے بعد اپنا پیٹ بھرتا ہے اور اُس کے بچے کھچے پر بقیہ گوشت خور جانور ٹوُٹ پڑتے ہیں ۔بد قسمتی سے یہ مُلک بھی ان سیاست دانوں کے لیے ایک شکار گاہ کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہیں ۔یہ سیاست دان اس مُلک اور اس کی غریب عوام کا شکار کرتے ہیں اور اُن کے بچے کُھچے پر اُن کے خوشامدی دربان ٹوُٹ پڑتے ہیں اور بعدازاں اپنے آقاؤوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔

دہشت گردی کا عفریت ،کرپشن کا جن ،رشوت کا دیو،فرقہ وارانہ و لسانی بلائیں ،بھوک و افلاس کے مارے عوام کو چاروں طرف سے گھیرے ہو ئے ہیں اور ان کے نام نہاد رہنماءمنی لانڈرنگ،پانامہ پانامہ ،بیرونی دوروں،فوجی عدالتوں کا قیام ہو نہ ہو ،اےپی سی،جیسے کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ان حکمرانوں کی بصیرت پر ماتم کے علاوہ کو ئی چارہ نظر نہیں آتا کہ سندھ کے عوام بالخصوص تھر میں لو گ قلتِ اجناس و آب سے مر رہے ہیں جبکہ ان کے ان داتاہیلی کاپٹر سے جیب تک کا 10 قدم کا سفر زمین پر نہیں کر سکتے کے مبادا کہیں جو تے گندے نہ ہو جائیں ۔

بھارت ببانگِ دہل پاکستان میں دہشت گردی میں مصروف ہے اور پاکستان کا ہر شہری بھارتی وزیر اعظم اور اُن کی کا بینہ کے انتہاپسند ارکان کے بیانات کونہ صرف مسترد کرتا ہے بلکہ اُن سے نفرت بھی کرتا ہے ۔لیکن بصدِ احترام پاکستان کا ہر مُحبِ وطن اپنے وزیر اعظم کے اس بیان پر ششدر رہ گیا جس میں انہوں نے فرمایا کہ مجھے ووٹ بھارت سے دوستی،اچھے تعلقات پر مِلا ہے ۔اگر آپ نے منموہن سنگھ کے تناظر میں بھی کہا ہے تو اس بیان کے لیے یہ وقت دُرست نہ تھا کہ نریند مودی کی پاکستان دُشمنی سے ہر کو ئی آگاہ ہے ۔قدرتی وسائل سے بھر پور یہ دھرتی مصنوعی مسائل کے انبار سے کیوں لدی ہو ئی ہے؟آخر کون اس قوم کا ناخدا بنے گا  جو اس کشتی کو بھنور سے نکال کر ساحل تک پہنچائے گا ۔مو جو دہ حکمران تو شاید "تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو " کے مقولے پر عمل پیرا ہیں اور انھیں دیکھ کر ذہن  بس ایک ہی تکرار کرتا ہے قدرت کے بگاڑے کو کون سنوارے۔یہ ملک قدرت کا ایک تُحفہ ہے اس کو ترقی یافتہ مُمالک کی صف میں دیکھنے کی خواہش قبل از وقت ہی پو ری ہو جا ئے یہ دُعا ہے ۔

    (آمین)

نوٹ: بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ بلاگر کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

سہیل رضا تبسم کراچی کی نجی یونیورسٹی میں لکچرار ہیں،اردو میں کالم اور بلاگ بھی لکھتے ہیں   

انکا ای میل sohail_tabbassum@hotmail.com