متروکہ گاؤں میں تنہا رہنے والا معمر سعودی

متروکہ گاؤں میں تنہا رہنے والا معمر سعودی

 جدہ : معمر سعودی علی ملیسی 3 بیویوں اور 10 بچوں کے ہوتے ہوئے بھی  اپنی  یادوں کے ساتھ تنہا  جازان کمشنری میں جزیرہ فرسان کے قدیم گائوں القصار  میں تنہا مقیم ہے  ۔ 
80 سالہ معمر شہری کا کہنا ہے کہ جزیرہ فرسان اب شہر میں تبدیل ہو چکا ہے جبکہ میں  اپنے ماضی سے دور نہیں رہ سکتا ۔  یہاں رہ کر سکون محسوس کرتا ہے ۔ اس گائوں کے گلی کوچے آج بھی میری یادو ں میں تازہ ہیں ۔

جازان کمشنری میں فرسان جزیرے سے ملحق  القصار نامی گائوں کو جسے محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے کر اسے قومی ورثہ قرار دے  ہے۔ اس گائوں کے باشندے  جزیرہ فرسان یا جازان کمشنری کے دیگرشہروں میں رہائش اختیار کرچکے ہیں ۔
گائوں کھجوروں کی پیداوار میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ مشرقی ریجن میں قصار گائوں کی کھجوریں مشہور ہیں ۔ ماضی میں جب جزیرہ فرسان میں مچھلی کے شکار کا موسم ہوتا تھا تو وہاں کے باشندے اونٹوں پر سوار ہو کر قصار گائوں آیا کرتے تھے اورچند دن وہاں قیام کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اس دوران وہ وہاں کی کھجوریں اپنے ساتھ ضرور لے جایا کرتے جو قصار قصبے کی سوغات تصور کی جاتی تھیں ۔
قصار گائوں اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے مشہور ہے ۔صاف آب و ہوا شہری آبادی سے دور پرسکون قصبہ لوگوں کی توجہ خودبخود اپنی جانب مبذول کرلیتا ہے ۔محکمہ آثار قدیمہ نے القصار گائوں کو اسی  پرانی طرز پر ہی رکھا ہے تاہم اسکی تزئین و آرائش اورمرمت کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے ۔   

سبق نیوز نے علی ملیسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انکی  3 بیویاں اور 10 بچے ہیں جو مختلف شہروں میں مقیم اور برسرروزگار ہیں ۔ وہ اپنے والدکی خیر خبررکھنے انکے پاس آتے جاتے رہے ہیں ۔ تاہم معمر شہری اپنی پرانی یادوں کے ساتھ تنہا القصار قصبے میں ہی مقیم ہے ۔
ڈپٹی گورنر جازان شہزادہ محمد بن عبدالعزیز اور سیاحتی کمیٹی کے ذمہ داروں نے قصار سیاحتی گائوں کا دورہ کیا تو گائوں کے صدر دروازے پر   علی ملیسی نے ان  سے ملاقات کی اور اپنے گھر مدعو کیاجسے اس نے انتہائی خوبصورتی سے پھول پودوں سے سجایا ہوا ہے ۔معمر شہری نے ڈپٹی گورنر اور انکے ہمراہ وفد کو اپنی شاعری سے بھی لطف اندوز کیا ۔ اسکا کہنا تھا کہ وہ آج بھی اس گائوں میں اپنے ایام رفتہ کے نقوش اور یادوں میں کھویا ہوا ہے ۔ 

واضح رہے القصار گائوں میں 400 کے قریب مکان ہیں جسں کی تزئین  و آرائش پر محکمہ آثار قدیمہ نے 21 لاکھ ریال سے زائد خرچ کئے ہیں۔