’’اردو: شعبے سے ادارے تک‘‘

’’اردو: شعبے سے ادارے تک‘‘

پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تازہ کتاب پنجاب یونیورسٹی میں اُردُو (شعبے سے ادارے تک) اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج کی ڈیڑھ سو برس سے زائد تاریخ پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا صفحہ صفحہ پڑھتے جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ گزشتہ ڈیڑھ سو برس کے ہردن کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل رہے ہیں۔ آپ کی عمر اِس وقت جتنی بھی ہو لیکن پروفیسر صاحب کی تحریر کا کمال ہے کہ آپ اس کتاب کو شروع کرتے ہی ڈیڑھ سو برس پرانے باشندے بن جاتے ہیں اور ماضی سے حال کا سفر کرتے کرتے ٹائم ٹنل کے اندر سے گزرتے ہوئے  بزرگی سے جوانی کی طرف آتے جاتے ہیں۔ اِس تحقیقی ٹرین کے سفر میں آپ کو اُس وقت کے انگریز حکمرانوں کی لاہور اور پنجاب میں علم کی روشنی پھیلانے کی دلچسپی اور کوششوں کا لمحہ بہ لمحہ پتا چلتا ہے۔ اِس کتاب کو پڑھنے سے آپ پنجاب اور لاہور کے حوالے سے تعلیمی فروغ کی سرگرمیوں سے اتنے باخبر ہو جاتے ہیں جتنے شاید اُس وقت میں موجود خود متعلقہ حکام بھی نہ ہوتے ہوں گے۔ پروفیسر صاحب کو علمی میدانوں میں مہم جوئی اور خطرناک سفر اختیار کرنے کا نہ جانے کیوں شوق ہے۔ اِس مرتبہ بھی انہوں نے اپنی کتاب پنجاب یونیورسٹی میں اُردُو (شعبے سے ادارے تک) میں شعبہ اردو کے قیام کے تصور سے لے کر شعبہ بننے اور اب انسٹی ٹیوٹ جیسے روشنی کے مینار کے حالات زندگی لکھ کر ایک علمی و تاریخی کوہ ہمالیہ سرکیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا عشق اردو زبان ہے۔ پروفیسر صاحب کو جاننے اور 
چاہنے والے بعض اوقات اُن کی اِس عاشقی سے کچھ پریشان ہو جاتے ہیں اور انہیں مشکوک نگاہوں سے بھی دیکھتے ہیں کیونکہ وہ اردو زبان کے بارے میں جب بھی لکھتے ہیں یا گفتگو کرتے ہیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی رومانوی شاعر یا لَوسٹوری لکھنے والا اپنے محبوب کے چاند چہرے اور ستارہ آنکھوں کے بارے میں لکھ رہا ہو۔ ہمیں معلوم نہیں کہ پروفیسر صاحب کا اردو سے یہ عشق بانو قدسیہ کے راجہ گدھ میں موجود مائی توبہ توبہ جیسی کسی ہستی کے چھومنتر کا نتیجہ ہے یا انگلینڈ کے قدیم کلیسا کی گھنٹی کی سریلی آواز کا اثر ہے کہ انہوں نے اپنے عشق کے تمام سُر اردو زبان سے ہی ملا رکھے ہیں۔ تاہم ہم پر اُن کے اِس عشق کا اظہار 1995ء میں اُس وقت ہوا جب انہوں نے شعبہ اردو کو لیکچرر کی حیثیت سے جوائن کیا۔ اس کے بعد اردو کے اِس جنونی عاشق نے شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اُس کا رواں تبصرہ انہی کی زیرنظر تازہ کتاب پنجاب یونیورسٹی میں اُردُو (شعبے سے ادارے تک) میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’زیرنظر کتاب اس تاریخ کے ایک ایسے مرحلے پر پیش کی جارہی ہے جب ڈیڑھ صدی کا یہ سفر ایک نئی جہت سے آشنا ہوچکا ہے اور جنوری 2021ء میں شعبہ اردو ترقی پاکر ایک ادارے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ وطن عزیز میں سب سے پہلے یہ اعزاز پنجاب یونیورسٹی کو حاصل ہوا کہ اس میں قومی زبان کا مستقل ادارہ قائم ہوا۔ تادم تحریر ملک کی کسی دوسری جامعہ میں اردو کا انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’راقم نے پہلے بحیثیت صدرِ شعبہ اور پھر بحیثیت بانی ڈائریکٹر ادارہ زبان و ادبیات اردو اس زمانے کے ایک ایک دن بلکہ ایک ایک لمحے کو ایک امانت کی طرح محسوس کیا‘‘۔ جیسے میں نے اوپر لکھا کہ اگر آپ پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ساتھ ڈیڑھ سو برس پرانی تاریخ کا سفر مذکورہ کتاب کے ذریعے کریں تو اِس چلتی ٹرین کی کھڑکی سے باہر آپ کو جابجا خوشگوار وادیاں، اونچے پہاڑ، آباد یا اجڑی بستیاں، سرسبز جنگل، ویرانے، قبرستان، شفاف دریا، کالی کائی لگی جھیلیں اور چھوٹے بڑے سٹیشن ’’گرم آنڈے‘‘ کی صدائوں کے ساتھ تیزی سے پیچھے جاتے محسوس ہوں گے۔ یہ سب وہ لمحہ لمحہ کے واقعات ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں ایک خیال سے لے کر پنجاب یونیورسٹی میں اردو کے ادارے کے قیام تک کی داستان ہے۔ یوں کہئے کہ ایک دانے کے گل و گلزار ہونے تک کی آپ بیتی ہے۔ اس کتاب میں پنجاب یونیورسٹی: قیام کا منظر نامہ اور پس پردہ مقاصد، علوم مشرق کا ایک پاسبان: اورینٹل کالج، تحقیقی پیش رفت، تشکیل کردار کی مساعی اور ادبی مباحث جیسے بے پناہ دلچسپ اور اہم ابواب شامل ہیں۔ البتہ میری نظر جب ایک باب کے عنوان پر پڑی تو اُسے میں نے خصوصی دلچسپی سے پڑھنا شروع کیا۔ اس باب کا عنوان ’’طالبہ کا استحقاق‘‘ ہے۔ میرا خیال تھا کہ آج ہم نے پروفیسر صاحب کو پکڑلیا لیکن باب کو پڑھنے سے پتا چلا کہ انہوں نے طالب علموں کے ساتھ ہونے والی بیورو کریٹک ناانصافیوں کا بھی بخوبی ازالہ کیا۔ جیسا کہ انہوں نے ایک اچھے ڈسپلنڈ منتظم کے طور پر خودسر طالب علموں کا ذکر ’’غیرحاضر رہنے والے طلبا و طالبات کا اخراج‘‘ کے باب میں کیا ہے۔ گویا پروفیسر صاحب کے ہاں انصاف نہ صرف ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ 

مصنف کے بارے میں