پروٹوکول والے عمرے حج……

پروٹوکول والے عمرے حج……

مدینہ والوں کو جب پابندیوں کے بعد حج کی اجازت ملی تو خستہ حال ننگے پاؤں تپش دید سے آنکھوں کو سجائے آبلہ پاء عاشقیں حجاز لبیک اللہ ھم لبیک کہتے چل پڑے تاریخ اسلام کی صعبتوں کا جب بھی خیال آئے تو سوچتی ہوں بندے کو حج کا موقع ملے تو جیسے عاشق چاک گریباں آبلہ پاء صحرا نوردی کرتے ہیں ویسے ہی ان نقش قدم پر پاؤں ملائے ہوئے چلا جائے جہاں کبھی صحرائی دھوپ پیاس اور گرمی نے عاشقین کے پسینے بہائے اقبال نے یونہی تو بندہ صحرائی اور بندہئ کوہستانی کی تعریف نہیں کی برصغیر کے لوگوں کا احساس کمتری انہیں تخت پر بھی چین نہیں لینے دیتا حدتو یہ کہ محترم نواز شریف کو پروٹوکول کے جلو میں عمرہ کرنا پڑا میرے پیش نظر محض یہ تھا کہ میرے ملک کی سڑکیں تو دندناتے ہوئے پروٹوکول کو برداشت کرلیتی ہیں حتیٰ کہ لاہور میں جب خود ڈرائیوکررہی ہوتی ہو ٹربجیں یا بندوقیں لہرائیں میرادل نہیں کرتا کہ میں اپنی گاڑی سڑک سے اتار کر کچے پر لے جاؤں حتیٰ کہ مائیک میں بھی ہدایات دیتے سرکاری نوکر اپنے لوگوں کو ڈراتے پوری تحریک آزادی کا مذاق اڑارہے ہوتے ہیں۔جوکبھی پونجا جناح کے بیٹے محمد علی جناح نے دیگرمذاہب کے بیٹوں اور شہیدوں کی قبروں کے ہمراہ لڑی…… اس پروٹوکول والے ملک کے لیے تھی وہ جدوجہد…… جہاں ہٹو بچو کا شورمچارہتا ہے سب جانتے ہیں میں ذاتی طورپر نواز شریف کے خلاف نہیں بلکہ ان کے مثبت پہلوؤں پر لکھا بھی مگر جو بات غلط ہے وہ ہرایک کے لیے غلط ہے میں کوئی پی ٹی آئی کی پرستار ورکر تو ہوں نہیں کہ ایمان لے آؤں میرے خیال میں مدوجزر حالات کے رہن منت ہے۔
مجھے انتہائی تکلیف دوحالات میں کئے جانے والے حج عمرے ہی عبادت کی معراج لگتے ہیں بعدازاں ہوتے ہوتے پکے فرش اے سی لفٹ افطاریاں سرکاری حج عمرے شروع ہوگئے اور اب پروٹوکول والے عمرے ……
بات صرف یہ ہے کہ دکھاکس کورہے ہو دوجہانوں کے والی ووارث مالک ومختار محبوب خدارسول کریم ﷺ کے سامنے کون سا پروٹوکول جچتا میں اس بات سے انکاری نہیں کہ آپ سچے عاشق رسول ہوں مگر عشق کی منزلیں تو بہت کٹھن ہوتی ہے۔
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے
یہ تو ابتدائی منزلوں میں ذات کے گم ہوجانے کا نام ہے، دیدار اور طواف تو بڑی بات ہے یہاں تو طواف آرزو میں عمریں گزر جاتی ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ جہان جہاں سارے چھوٹے چھوٹے عشق ملکر سمندر بن جاتے ہیں وہاں کس کی چلتی ہے۔
چلیں جی اگر جان کا خطرہ ہے تو پھر پاؤں دریائے محبت میں ڈالیں ہی کیوں کہ یہ سودا جان سے کم پر نہیں ختم ہوتا …… اور اگر بے عزتی نعرے بازی اور بدتمیزی کا خدشہ ہے تو ظاہر ہے آیات حجرات کی موجودگی میں ایسے بدبختوں کے لیے کیا سزا ہوتی جو نبی ﷺکے صحن میں اونچی آواز سے بھی بات کریں ……
ڈرنا کیا خوف کیسا وہاں جاکر اگر ذلت بھی ملے تو قبول
منہ دھوڑ مٹی سر پائم
سارا ننگ نموذ ونجائم
کوئی پچھن ناویہڑے آیئم
ہتھوں الٹا عالم کھلوا
کوئی محرم راز نہ مل دا
ہمارا صوفی نہیں گھبرایا لوگوں کی طنزیں جگ ہنسائی دھول دھپے تو عاشق کی کمائی ہوتے ہیں۔
اسی میں تو لطف ہے بار بار دروازے پہ جانا صدا لگانا اور تمسخر کی نذر ہوجانا دل والوں کے سودے ہیں۔
ڈرکس بات کا چاردائیں چار بائیں بیس آگے بیس پیچھے سپاہی لے کر عشق کی رسمیں نبھائی جارہی ہیں آپ ملنے آئے دیدار کو آئے یا اپنا ”نِکا“ ساپروٹوکول دکھانے آئے وہ جس کے لیے عرش بریں پر میلے سجتے ہیں ملاقاتوں کا اہتمام ذات باری کرتی ہے جہاں براق کے پر جلتے ہیں اور ملاقات والے دروازے کی کنڈی ہلتی رہتی ہے اور دیدار میں زمانے بیت جاتے ہیں جن کے لیے پوری کائنات بنائی جاتی ہے
دہرجز جلوہئ یکتائی معشق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
کس کو اپنا آپ دیکھنے کی چاہ تھی ہم جیسوں جیسے دنیا بنائی گئی مقصد تو کچھ اور تھا واقع مختلف تھا آپ سمجھے نہیں …… گھوڑے جوڑے دف مراثی چھنکنے بن کر اڑ چکے ہاتھی درباری محل مینارے کب کے اڑ چکے سلطنتیں بن کر بکھر چکیں سازشوں کی بجائے ہاتھوں سے تلوار چلاکر براعظم فتح کرلینے والے بھی جاچکے تہذیبیں بنیں بھی اور پوری کی پوریزمیں دوز بھی ہوئیں آج بھی مؤرخین سطوت شاہانہ کے ٹوٹے ہوئے پرسمٹ رہے ہیں شاہی دسترخوانوں میں سجنے والے برتنوں کے ٹوٹے وجود عجائب گھروں میں سجارہے ہیں درحقیقت وقت تو اوقات بتاتا رہتا ہے مگر بندے کو سمجھ نہیں آتی اگر بندے کو آبھی جائے تو سیاست دان کو کم ازکم نہیں آتی ہنسی آتی ہے اوپر سے یہ لوگ اپنے ”وزن“ کی بات کرتے ہیں اور تو اور نظریاتی بھی کہتے ہیں کون سا وزن کون سا نظریہ اس کے معنی بھی آتے ہیں ووٹ مانگنے والوں کو برصغیر کے بڑے لیڈر کہاں ووٹ مانگنے گئے کس تھیوری پر عمل کرکے برصغیر آزاد کرواگئے ابھی تو آپ برصغیر کے لیڈروں تک نہیں پہنچے ولی اولیاء تک کیا پہنچیں گے صوفی کی بے نیازی کو کیا سمجھیں گے اور جہاں آپ اور آپ جیسے دنیاوی بادشاہ پروٹوکول کے جلومیں حاضریاں دیتے اور دلواتے ہیں وہاں مزید حساسیت، ذہانت اور عقل کی توقع عبث ہے میں ابھی تک وہاں نہیں جاسکی سوچتی ہوں وہ سفر کیسا ہوگا وہ ارادہ کیسا ہوگا میرا دل روضہئ رسول ﷺ کے سامنے کتنا دھڑکے گا اپنے ہونے کا سبب جان لے گا میری آنکھیں اپنی بینائی پہ ناز کریں گی میرے سانس زندگی کا مقصد جان لیں گے دکھے، ملامتیں جھڑکیں میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی میں اس راہ عشق میں ٹھوٹھا پکڑے مرادوں والی ونجھلی تھامے گرتی پڑتی وہاں کھڑی رہوں گی پل دوپل ذرا سی دیر اور تمام عمر کی مسافت طے ہوجائے گی۔