کابل ایئرپورٹ دھماکے: ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے، ہلاکتوں کی تعداد 90 تک پہنچ گئیں  

Kabul Airport Blast: Hospitals Filled with Injuries, Death Toll Reaches 90
کیپشن: فائل فوٹو

کابل: کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 90 تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت شہر کے ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں، ان میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے، خدشہ کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس وقت کابل میں قیامت صغریٰ کا منظر ہے، لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کیلئے دیوانہ وار ایک سے دوسرے ہسپتال کے چکر لگا رہے ہیں۔ اس سفاک دہشتگردی میں بچوں، خواتین اور بزرگوں سمیت درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ان دھماکوں میں اس کے 13 فوجی بھی لقمہ اجل بنے جبکہ طالبان نے تصدیق کی ہے کہ ان کے 28 جنگجو بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں خون کے عطیات دینے کیلئے عوام سے اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ امدادی ٹیموں کا کہنا ہے کہ اس وقت 150 سے زائد افراد مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس افراتفری کے عالم میں بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے انخلا کا عمل جاری ہے جسے مزید تیز کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ طالبان نے 31 اگست کی ڈیڈ لائن میں مزید توسیع دینے سے انکار کرتے ہوئے امریکا پر واضح کر دیا تھا کہ مقررہ وقت سے پہلے اپنے وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے تمام اتحادی افغانستان سے نکل جائیں۔ طالبان قیادت کا کہنا ہے کہ انخلا کی تکمیل کے بعد ہی نئی حکومت کے قیام کا اعلان کیا جائے گا۔

امریکی حکام نے افغان شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ہوائی اڈے سے دور رہیں کیونکہ داعش کی جانب سے مزید حملے کئے جا سکتے ہیں۔ جنرل میکنزی نے کہا ہے کہ داعش کی جانب سے کار بم دھماکوں اور راکٹ حملوں کا شدید خطرہ موجود ہیں، ہمیں الرٹ موصول ہو رہی ہیں۔

خیال رہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس) نے کابل دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ دہشتگرد تنظیم کی جانب سے خود کش حملہ آور کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس نے ہجوم اور امریکی اہلکاروں کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس نے دھماکہ خیز مواد سے بھری جیکٹ پہن رکھی تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ناروے نے کابل دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ خود کو محفوظ مقامات پر منتقل کر لیں کیونکہ ان کے انخلا کا عمل روک دیا گیا ہے۔

نارویجن وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کے اس ماحول میں اپنے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈال سکتے، ہمارے لئے فی الحال انخلا کا آپریشن جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔

بی بی سی کے مطابق دھماکوں کے بعد ہر طرف لاشیں، گوشت کے چیتھڑے اور خون تھا۔ دھماکے نے اچانک نئی زندگی کی تلاش میں سرگرداں جیتے جاگتے انسانوں کو لاشوں کا ڈھیر بنا دیا۔

خبر رساں ادارے نے دھماکوں کے بعد دلخراش مناظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دھماکے کے بعد میتوں کی بے حرمتی کی گئی، انھیں جگہ صاف کرنے کیلئے قریب ہی ایک نالے میں پھینک دیا گیا۔

دھماکوں کے بعد ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ شدید زخمی حالت میں بھی دیوانہ وار اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے تھے۔