نیچر اور طاقت

Dr Ibrahim Mughal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 ٹھیک ہے کہ دنیا میں طاقتور کامیاب ہے، کا میا ب ہو نا کوئی جر م نہیں،مگر المیہ یہ ہے کہ وہ کمز ور کا حصہ کھا کر کا میا ب ہے۔ اور کوئی پسند کر ے یا نہ کرے، مگراسے اس سلسلے میں نیچر کی حما ئت حا صل ہے۔گو کہ یہی نیچر کا دستور ہے۔ ا نسانوں کے مقابلے میں جانوروں پہ یہ کلیہ جسمانی طور پر طاقتور ہونے کی صورت میں لاگو ہوتا ہے۔ مگر انسانوں کی بات کی جائے تو طاقتور ہونے کا بڑا مطلب دولت مند ہونا ہے۔ گویا زندگی جینے کی دوڑ دھوپ میں دولت مند کامیاب ہیں۔ اور اسی کلیہ کے مطابق وہ غریبوں کی کمائی مسلسل لوٹتے ہوئے کامیاب ہیں۔ اور وہ جو بالزیک نے کہا ہے: 'Behind every great fortune there is a crime.' یہ کہ ”ہر بڑی خوش قسمتی کے پیچھے کوئی جرم پوشیدہ ہوتا ہے۔“ آپ جب کسی دولت مند سے اس کی دولت کے بارے میں استفسار کریں گے تو وہ بتائے گا کہ یہ سب میری محنت کا نتیجہ ہے۔ کیا کوئی سمجھائے گا کہ محنت کیا ہوتی ہے؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ کیا بڑی بڑی پارٹیوں میں مدعو کیے ہوئے اپنے پیٹی بھائیوں کے ساتھ جام نوشی کرتے ہوئے سودے طے کرنے کو محنت کہتے ہیں۔ اور وہ جو مزدور دن بھر اینٹیں اٹھاتا ہے، شام کو اس کی دیہاڑی پہ تکرار ہوتی ہے، اس کا کام کیا کسی محنت کے زمرے میں نہیں آتا؟ ان کے لیے انقلابی شاعر اور ادیب لکھتے تو بہت کچھ ہیں۔ وہ کہتے ہیں    ؎
جشن بپا ہے کٹیاؤں میں 
اونچے ایوان کانپ رہے ہیں 
مزدوروں کے بگڑے تیور دیکھ کے 
سلطان کانپ رہے ہیں 
شور مچا ہے بازاروں میں 
ٹوٹ گئے در زندانوں کے
واپس مانگ رہی ہے دنیا
غضب شدہ حق انسانوں کے
کانپ رہے ہیں ظالم سلطان 
ٹوٹ گئے دل جباروں کے
بھاگ رہے ہیں ظل الٰہی 
منہ اترے ہیں غداروں کے
جی ظل الٰہی بھاگ گئے، مگر وہ غریب غرباء کے رد عمل سے نہیں بھاگے، وہ تو اپنے سے بڑی طاقت کی زور آوری سے بھاگے اور وہ پھر واپس آگئے۔ جاگیرداروں اور کاروباری شخصیات کے روپ میں۔ اور وہ جو شاعر کہہ رہا ہے کہ ’جشن بپا ہے کٹیاؤں میں‘ تو اگر وہ کٹیاؤں میں بھوک سے بلکتے بچوں کے رونے کو جشن کہنا چاہ رہا ہے تو کہتا رہے۔ اور وہ تو پھر یہ بھی کہتا ہے   ؎
جمع ہوئے ہیں چوراہوں پر 
آکے بھوکے اور گداگر
ایک لپکتی آندھی بن کر 
ایک دہکتا شعلہ بن کر
کاندھوں پر سنگین کدالیں 
ہونٹوں پر بے باک ترانے
دہقانوں کے دَل نکلے ہیں 
اپنی بگڑی آپ بنانے
تو جمع ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں چوراہوں پر بھوکے اور گداگر۔ اور وہ مزدور جو کدالیں وغیرہ اٹھا کر جلوس نکالنے کو نکلے ہیں تو وزیراعظم ہاؤس تو کیا وہ کبھی اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ کو عبور نہ کرسکیں گے۔ جناب یہاں پہ بھینس اسی کی ہی جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے۔ وہ اس ڈنڈے سے عدالتوں کو بھی ہانک رہا ہے۔ عوام تو بھلا ہیں کس کھیت کی مولی۔ اور رہے حزب اختلاف کے سیاستدان، تو وہ جناب وزیر اعظم کی ایک پیار کی نظر کی مار ہیں۔ وزیر اعظم بس ذرا سا اشارہ دے دیں کہ وہ ان سے چائے پر ملنا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھئے ان کی بے صبریاں اور آنیاں جانیاں۔ فوراً کوشش کریں گے کہ اخبار میں ہونے والی ملاقات کی خبر لگ جائے۔ پھر سب سے بڑی تلخ حقیقت کہ انتخابات کروالیں، یہی لوگ اسی تناسب سے پھر کامیاب ہوجائیں گے۔ عوام دھوپ میں لگ کر انہی کو ووٹ دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان بڑوں نے اپنی برسوں کی ریاضت سے عوام کے ذہن مفلوج کردیئے ہیں۔ وہ اپنی بدحالی میں مست ہیں۔ وہ تنگ آکر خود کشی تو کرسکتے ہی لیکن علم بغاوت بلند کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ اب جو سیلفیوں کا رواج چل نکلا ہے تو وہ ان بڑوں کے ساتھ سیلفی بنوالینے کو اپنی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ یہ عوام اس ہجوم کی مانند ہیں جو ایک ایسا پل پار کررہا ہے جس کے داخلے کے راستے پہ بیٹھا دربان انہیں دو جوتے مار کر گزرنے کی اجازت دے رہا تھا۔ گزرنے والوں کا رش بہت زیادہ تھا۔ تنگ آکر انہوں نے ایک مطالبہ کردیا۔ انہوں نے حاکموں سے درخواست کی کہ حضور جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھادی جائے کہ ہم جلدی پل پار کرلیں۔ تو یہ ہے اپنے وطن کی عوام کی سوچ کی پہنچ۔ ان میں سے کوئی بھی ملک کا سربراہ بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میراثی صاحبان سے معذرت کرتے ہوئے ایک لطیفہ پیش کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ ایک میراثی کے بیٹے نے اس سے پوچھا کہ اگر گاؤں کا چودھری مرجائے تو پھر کون چودھری بنے گا۔ میراثی نے جواب دیا اس کا بیٹا۔ میراثی کے بیٹے نے پوچھا کہ اگر بیٹا بھی مر جائے تو؟ میراثی نے جواب دیا، اس کا دوسرا بیٹا۔ بیٹے نے پوچھا کہ اگر وہ بھی مر جائے اور یہ کہ باقی کے سب ہی بیٹے بھی مرجائیں تو۔ میراثی نے جواب دیا کہ تب چودھری کا نزدیکی رشتہ دار۔ بیٹے نے پوچھا اگر وہ بھی مر جائے تو؟ میراثی بیٹے کی دل میں چھپی خواہش کو سمجھ چکا تھا۔ تب اس نے کہا ”میرے بیٹے اگر پورا گاؤں بھی مرجائے تو تُو تب بھی چودھری نہیں بن سکے گا۔“
مگر ہمارے عوام تو خواہش ہی نہیں رکھتے۔ وہ تو صرف جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائے جانے پر مصر ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ کہاں کا مہر کنور اور کہاں کی تنویریں کہ بام و در پہ سیاہی جھلک رہی ہے ابھی۔ ان طا قتوروں نے عوام کو صوبائیت میں بانٹا، مذاہب میں بانٹا، فرقہ واریت میں بانٹا اور پھر سیاسی وابستگی میں بانٹا۔ عوام نے اسی تقسیم کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا۔ یوں عوام کا سفر ایک دائرے کی صورت میں گھومنے تک محدود ہوکے رہ گیا ہے۔ جبکہ یہ بڑے ایک خط مستقیم کی شکل سیدھا اوپر کی جانب سفر کرتے ہوئے عوام کی زمان و مکان کی قید سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔