ایکسٹینشن لینا غلطی ،عمران خان سے ایسے رویے کی توقع نہیں تھی  جو پتا ہے 5 فیصد بھی بیان کردوں مخالفین کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی: جنرل باجوہ 

ایکسٹینشن لینا غلطی ،عمران خان سے ایسے رویے کی توقع نہیں تھی  جو پتا ہے 5 فیصد بھی بیان کردوں مخالفین کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی: جنرل باجوہ 
سورس: File

راولپنڈی : سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے انہیں ایکسٹیشن ان کی مرضی کے بغیر دی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایکسٹینشن لینا غلطی تھی ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں ہی ہوں باہر نہیں جاؤں گا۔ مجھ سے اور فوج سے ماضی بہت غلطیاں ہوئی ان سے سیکھا ہے اب انہیں دہرانا نہیں چاہیے۔ 

سینئر صحافی جاوید چودھری نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا احوال اپنے کالم میں بیان کیا ہے۔ سینئر صحافی کے مطابق  جنرل باجوہ اپنے اثاثوں سے متعلق خبر پر دکھی ہیں  یہ جانتے ہیں ایف بی آر کے اہلکاروں نے 20 لاکھ روپے لے کر 50 لوگوں کا ڈیٹا لیک کیا اور رپورٹر نے صابر مٹھو کے اثاثے ان کے کھاتے میں ڈال کر انھیں بدنام کر دیا۔

سینئر صحافی کے مطابق جنرل باجوہ اب اپنے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کرا رہے ہیں ۔ 1980 سے جب ان کی تنخواہ ساڑھے 14 سو روپے تھی اور یہ جب 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوئے ‘ یہ اپنے 42 سال کے ایک ایک پیسے کا حساب دیں گے اور پھر فارنزک رپورٹ پبلک کر دیں گے۔ 

سینئر صحافی نے مزید لکھا کہ جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلافات کا تاثر عام ہے جب کہ اصل صورت حال مختلف ہے ۔جنرل فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے ملاقات کے لیے بھی آئے اور دونوں اب مل کر ویلفیئر کا کوئی پروجیکٹ بھی بنا رہے ہیں ۔

انہوں نے بتایاکہ ملک محمد احمد خان ان کے سمدھی صابر مٹھو کے دوست ہیں ،محمد زبیر جنرل باجوہ کے ماموں زاد انجم وڑائچ کے دوست اور کلاس فیلو ہیں ، علیم خان کے سسر راجہ محمد صابر(مرحوم) ان کے سسر جنرل اعجاز امجد کے دوست تھے اور اس تعلق سے ان کی علیم خان سے تین ملاقاتیں ہوئیں۔ 

جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین عمران خان کو لے کر پہلی بار ان کے گھر آئے تھے ۔ عمران خان کی چند خوبیوں کا معترف ہوں تاہم نواز شریف نے انھیں ہمیشہ عزت دی۔ان کی میاں نواز شریف سے 2017کے بعد صرف ایک بار ٹیلی فون پر بات ہوئی اور وہ بھی انھوں نے بیگم کلثوم کے انتقال پر تعزیت کے لیے میاں صاحب کو فون کیا تھا۔

عمران خان کی کابینہ کے چند وزراء کی کارکردگی اور محنت کی تعریف کرتے ہونے انہوں نے کہا کہ حفیظ شیخ اور فروغ نسیم  کی کارکردگی بہت اچھی تھی ۔عثمان بزدار اور شہزاد اکبر کو عمران خان کی ناکامی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ملک صرف جمہوریت‘ معاشی استحکام اور ڈائیلاگ سے چل سکتا ہے۔ سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے تاکہ فوج سیکیورٹی پر توجہ دے سکے۔ سیاست فوج کا کام نہیں۔ 

جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ایکسٹینشن پر بہت افسوس ہے مگر یہ سچ ہے عمران خان نے ان کو اعتماد میں لیے بغیر یہ فیصلہ کیا تھا ۔ افغانستان‘ بھارت اور داخلی معاملات اس وقت تک اتنے الجھ چکے تھے کہ مجبوراً فیصلہ قبول کیا مگر یہ میری غلطی تھی ۔ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں  ہی رہوں گا۔ کسی دوسرے ملک میں عارضی یا مستقل رہائش اختیار نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ میر صادق اور میر جعفر کے خطاب‘ غداری کے ٹائٹل اور سازش کے بیانیے پر اداس ہوں۔جو کچھ جانتے ہوں اگر اس کا پانچ فیصد بھی بیان کر دوں تو  مخالفوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی لیکن جواب نہیں دینا چاہتا۔ اپنا کیس اللہ پر چھوڑ چکا ہوں۔ مجھ سے اور فوج دونوں سے ماضی میں بہت غلطیاں ہوئیں‘ ہم نے ان غلطیوں سے سیکھا اور ہمیں اب یہ غلطیاں دہرانی نہیں چاہییں۔

جنرل باجوہ کا کہناتھا کہ جنرل عاصم منیر کی ایمان داری‘ پروفیشنل ازم اور ملک سے محبت کا معترف ہوں۔ جنرل عاصم عربی زبان جانتے ہیں ۔ گلف کے تمام معاملات کواچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ ان کے شاہی خاندانوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہ ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں‘ مکمل سولجر ہیں اور ہر قسم کا پریشر برداشت کر لیتے ہیں لہٰذا یہ فوج اور اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے آسانی سے نبٹ لیں گے ۔

سابق آرمی چیف کو خدشہ ہے کہیں ان کی طرح نئے آرمی چیف کے خلاف بھی ٹرولنگ نہ شروع ہو جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا ۔گرینڈ ڈائیلاگ اور جمہوریت دونوں کا حامی ہوں  اتنے احسانات کے بعد عمران خان سے اس رویے کی ہرگز توقع نہیں تھی۔

مصنف کے بارے میں