اپنے ہی شیشے پر پتھر…

Shafiq Awan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

پی ڈی ایم کا ایک اور اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ہمیشہ کی طرح اگلے اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا۔ اب تو اس اتحاد کے اتحادی بھی اس اجلاس پر اجلاس کی روش سے تنگ آگئے ہیں اور برملا اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے۔ میڈیا پنڈت پی ڈی ایم کے اس بے نتیجہ اجلاس پر اجلاس کی روش سے اتنے بیزار ہیں کہ اب ازراہ تفنن کہتے ہیں کہ آجکل پی ڈی ایم کے اجلاس محض اگلے اجلاس کی تاریخ رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم کو اندازہ ہو چکا ہے کہ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو اتحاد سے نکالنے، اتحادیوں کے اندرونی اختلافات اور لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے لیے پاکستان کے معروضی سیاسی حالات کو مدنظر نہ رکھنے پر اسے جس سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس گرداب سے نکلنا اب شاید ان کے لیے نکلنا ممکن نہ ہو۔ 
 کسی بھی جمہوری حکومت کے خاتمے کے لیے آئینی رستہ عدم اعتماد ہوتا ہے اور قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک وقت میں عدم اعتماد کا بڑا شور تھا کہ اب ہوا کہ تب ہوا اور اسی بہانے اتحادی بھی پی ڈی ایم سے چپکے رہے کہ چلو اس اپوزیشن اتحاد کی کوئی تو سمت ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کے بعد آہستہ آہستہ اس غبارے میں سے بھی ہوا نکل گئی۔ شاہد خاقان عباسی نے عدم اعتماد کا مردہ بے گوروکفن یہ کہہ کر دفنا دیا کہ ہمارے پاس عدم اعتماد کے لیے مطلوبہ نمبر نہیں ہیں دوسرے اسٹیبلشمنٹ بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ پھر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 23 مارچ کا لانگ مارچ طویل المدتی نہ ہو گا۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان لانگ مارچ اور دھرنے کو حکومت کے خاتمے تک جاری رکھنے کا کہہ رہے ہیں لیکن شاہد خاقان کے اس بیان پر یقینا دم بخود ہوں گے ویسے بھی مولانا کے بیانات دیکھیں جائیں تو آجکل وہ بھی محض خانہ پری کے لیے اپوزیشن کر رہے ہیں۔ 27 مارچ کو کے پی کے میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہونے کو ہیں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے لیے زیادہ اہم یہ بلدیاتی انتخابات ہیں کیونکہ پہلے مرحلے میں وہ خلاف توقع فاتح ٹھہرے تھے۔ پنجاب میں بھی رمضان المبارک کے بعد مئی میں بلدیاتی انتخابات کی بھی آمد آمد ہے اور مسلم لیگ نواز ان انتخابات سے کسی صورت بھی پہلو تہی نہیں کر سکتی اور اس کا ہدف بھی بے فیض احتجاج کی بجاے بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ نئے بلدیاتی قوانین کے تناظر میں 2023 کے عام انتخابات میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور مسلم لیگ ن سے زیادہ اس کی اہمیت کا کسے احساس ہو سکتا ہے۔ پھر 2 اپریل کے آس پاس رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہو گا تو اس صورت میں 23 مارچ کا لانگ مارچ کتنے دن چل سکتا ہے اس کا عوام خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ 27 مارچ کو کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی طے ہے اور مئی میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں کوئی بھی سیاسی جماعت کسی احتجاج کے بجاے بڑے ہدف کی طرف متوجہ ہو گی۔ سیاسی پنڈت تو اسے ’’شرما شرمی‘‘ کا لانگ مارچ کہہ رہے ہیں کیونکہ درجن بھر اعلانات کے بعد اس کا انعقاد تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق لازمی ٹھہر گیا تھا۔ اس قسم کے لانگ مارچ ہدف کے حصول تک طویل المدتی ہوتے ہیں لیکن اس کے انعقاد کی تاریخ اور مقام کے انتخاب سے ہی اس کی سنجیدگی عیاں ہو رہی ہے۔ 
عدم اعتماد کے حوالے سے اجلاس میں بھی رکن جماعتوں نے سوال کیا کہ کیا ’’ایمپائر‘‘ آپ کے ساتھ ہے تو جواب آیا کہ نہیں تو پھر پوچھا گیا کہ اتنے بڑے دعوے کس لیے؟ پھر اختر مینگل صحب سے منسوب ہے کہ دو سال سے محض اعلانات پر اعلانات ہو رہے ہیں اور عملی طور پر کچھ نہیں کر سکے تو کچھ تو اعلان کریں اب تو پی ڈی ایم اور لانگ مارچ 
مذاق بنتا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے 27 فروری کے لانگ مارٍچ میں ہی اپنی شرکت کر کے یا اسے اپنا کر بچی کھچی عزت بحال کر لیں لیکن اس پر بھی کوئی فیصلہ نہ ہو سکا کیونکہ مسئلہ احتجاج نہیں انا کا تھا اس لیے اسے بھی رد کر دیا گیا۔ پی ڈی ایم کے ایک رکن جماعت کے لیڈر سے جب میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ لانگ مارچ کی تاریخ 23 مارچ ہی ہو گی اور مقام یا ہدف بھی اسلام آباد ہو گا تو کہنے لگے کہ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تو میڈیا کی تنقید ،عوام کی مایوسی اور سب سے بڑھ کر اتحاد ٹوٹنے سے بچنے کے لیے ابھی تک تو تاریخ 23 مارچ ہی رکھی گئی ہے لیکن اس کا مقام ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے اور اتحادی جماعتیں پر بھی 
اس حوالے سے اعتماد نہیں کیا گیا البتہ ساری کچھڑی مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی کے درمیان پک رہی ہے۔ وہ پر یقین نہیں تھے لانگ مارچ کا ہدف اسلام آباد ہی ہو گا ان کا خیال تھا کہ 23 مارچ کی پریڈ کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ 23 کے لانگ مارچ کا مقام پنڈی ہو اور چند روز بعد اسلام آباد روانگی ہو جاے لیکن اس سے پی ڈی ایم کی سبکی ہو گی اور عوام میں پذیرائی نہ ہونے کے علاوہ میڈیا کی تنقید بھی سہنی پڑے گی۔ وہ پیپلز پارٹی پر بھی اپنا غصہ نکال رہے تھے کہ ان کی جلد بازی سے اسے اتحاد سے نکالنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودگی کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان پر کسی حد تک دبائو تھا لیکن ان کے جانے کے بعد تو وہ من مانی کر رہے ہیں اور چھوٹی جماعتوں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اف بھی کر سکیں۔ ایک طرف تو شہباز شریف مفاہمتی ڈرم بجا رہے ہیں دوسری طرف مولانا فضل الرحمان کو بھی کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ ملنے پر ان کی اقتدار کی پیاس بھی کسی حد تک بجھ گئی ہے اور سیاسی طور پر ان کا اگلا ہدف اس بے لذت احتجاج کی بجاے کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ زیادہ اہم ہو گا۔ 
حقیقتاً سب جماعتوں کا اگلا ہدف 2023 کے انتخابات ہیں اور یہ لانگ مارچ کا شوشہ بھی اس وقت تک خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا اگلا ہدف بھی یہی انتخابات ہیں اور وہ مسلم لیگ ن پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنا سیاسی وزن بڑھانے کے لیے ایک بار پھر دینی جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں۔ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی لیکن ان کی دیرینہ اتحادی جماعت اسلامی نے تو فی الحال ان کے ساتھ نہ چلنے کہ کہہ دیا ہے البتہ مولانا فضل الرحمان نے تحریک لبیک سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ ایک مضبوط مذہبی انتخابی اتحاد ثابت ہو سکتا ہے۔ 
حکومت کے خلاف احتجاج میں بھی اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی کی بجائے اپنی انا کی غلام بنی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی الگ راگ الاپ رہی ہے اور اس کا تمام تر ہدف سندھ کے بلدیاتی انتخابات کی نئی قانون سازی تک محدود نظر آرہا ہے۔ سراج الحق صاحب اکا دکا جلسے کر رہے ہیں اور اس میں بھی وہ ’’وزیر اعظم سراج الحق‘‘ کے نعروں سے زیادہ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ 
ادھر پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ لاکھوں کے عوامی اجتماع کی بجاے ’’ڈویژنل ٹریکٹر مارچ‘‘ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اور اس میں بھی پیپلز پارٹی ملک کے تمام 27 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں اتنے ٹریکٹر نہیں جمع کر سکی کہ اپنا ٹریکٹر مارچ ملکی سطح پر رجسٹر کرا سکتی۔ یقیناً پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ کامیاب ہو یا ناکام لیکن آصف زرداری صاحب کے 27 فروری کے لانگ مارچ کے اعلان نے پی ڈی ایم کے احتجاج کی اہمیت کم کر دی ہے۔ 
اس بے ہنگم احتجاجی سیاست کی وجہ سے یہ پتہ نہیں چل رہا کہ اونٹ کی طرح اپوزیشن کی کون سی کل سیدھی ہے۔ اب تک تو یہ سارے پتھر اپنے ہی شیشے پر مار رہی ہے اور شیشے کی کرچیوں میں اپنی صورت دیکھنے کو بھی ترس رہی ہے۔ 
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں