اپوزیشن چاہتی ہے فوج اور حکومت لڑ پڑیں لیکن اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک صفحے پر ہیں: شیخ رشید 

اپوزیشن چاہتی ہے فوج اور حکومت لڑ پڑیں لیکن اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک صفحے پر ہیں: شیخ رشید 
سورس: File

اسلام آباد: وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور فوجی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں اور ملک کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک ہی صفحے پر ہوں۔ فوجی قیادت کا فیصلہ ہے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی۔

بی بی سی کو انٹرویو میں حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے اختلاف تو ہو سکتے ہیں۔ سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور رائے میں فرق تو ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں کہ وہ ایک صفحے پر نہ ہوں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی اپنے بیان پر قائم ہیں اور یہ کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ سول حکومت میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ بیان واپس لیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں لیا مگر میرا مطلب یہی تھا کہ حکومت اور اداروں کی پالیسیاں ایک ہی صفحے پر ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اپوزیشن تو چاہتی ہے کہ عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات خراب ہوں مگر نہ اسٹیبلشمنٹ بھولی ہے نہ عمران خان بھولا ہے۔ ملک کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک ہی صفحے پر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کرپشن اور احتساب کے معاملے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ کہ انھوں نے کئی افراد کو پارٹی یا عہدوں سے فارغ کیا جن پر کرپشن کا الزام یا ان پر شک تھا۔ عمران خان اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کر سکتا۔عدالتوں نے کرپشن سے متعدد فیصلوں میں بہت طویل مدت کے لیے حکم امتناعی دیے ہوئے ہیں۔

شیخ رشید یہ بھی تسلیم کیا کہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے ایسا نظر آتا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات لے جاتے وقت ’شاید درست انداز میں تیاری نہیں کی گئی۔ شاہد ہماری طرف سے کمزوری تھی لیکن عمران خان کو اس لیے ووٹ دیے کہ چوروں، ڈاکووں، کرپٹ اور بددیانت لوگوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ احتساب عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا مگر اس میں ہمیں وہ کامیابی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بتایا کہ دیگر ممالک خاص طور پر برطانیہ میں مقیم ان ملزمان اور مجرموں کو واپس لانے کے لیے معاہدے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ ان افراد کو وطن واپس لایا جائے جو پاکستان میں عدالتوں اور حکومت کو مطلوب ہیں تاہم انھیں یہ شکایت بھی ضرور ہے کہ بہت سی کوششوں کے باوجود وہ تاحال اسحاق ڈار کی واپسی بھی ممکن نہیں بنا سکے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی سے متعلق انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ واپس آ جائیں۔ ہم ساڑھے تین سال سے اسی کام پر لگے ہیں۔ (انھیں) ہم نے خود بھیجا، ہماری ہی غلطی ہے۔ وہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو گئے اور باہر چلے گئے۔

شہزاد اکبر سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ ان کے استعفی اور وزیر اعظم کی ان سے ناراضگی کی وجہ محض نواز شریف یا شہباز شریف کو واپس لانا ہی نہیں بلکہ ’ہم پیسے بھی تو واپس نہیں لا سکے۔ اربوں کی کرپشن ہوئی۔ ایک ایک ملازم کے اکاونٹ سے چار چار ارب روپے برآمد ہو رہے ہیں۔ صرف شہباز شریف پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے لیکن ہم ان کے پیسے بھی نہیں لا سکے۔

شیخ رشید کہتے ہیں کہ احتساب کے عمل میں ہر جگہ ہی بہتری کی گنجائش ہے۔ ہمیں کیسز اچھے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اچھے وکیل ہوں۔ عمران خان میں ارادے کی کمی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ این آر او دینا غداری ہو گی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ دہشتگردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط ایک طویل جنگ کے بعد اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور معلومات اکٹھی کرنے کا نظام کافی بہتر ہے لیکن آئندہ دو ماہ تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشتگردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔ جوہر ٹاون دھماکے میں وزارت داخلہ کے پاس انڈین خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں۔

لاہور کے حالیہ واقعے (انارکلی بازار) کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ بلوچستان میں بی این اے (حال ہی میں ضم ہونے والے دو علیحدگی پسند گروہوں کی تنظیم) نے اس کی ذمہ داری قبول کی مگر ہم اس کی بھی تحقیق کر رہے ہیں۔ اس واقعے میں ملوث ایک شخص ہمیں مطلوب ہے اور وہ تاحال نہیں پکڑا گیا۔ اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت میں ملوث چار دہشگرد بھی پکڑے گئے ہیں۔

اس سوال پر کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کیوں سرگرم ہو گئی، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ طالبان کی حکومت ایک مثبت کردار ادا کر رہی ہے اور وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ثالث بھی رہی ہے۔ شیخ رشید کے مطابق انھیں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی پر زور نہیں چلتا۔