کیا فواد چوہدری کی گرفتاری بڑا مسئلہ ہے؟

کیا فواد چوہدری کی گرفتاری بڑا مسئلہ ہے؟

کیاپاکستان تحریک انصاف کے راہنما فواد چوہدری کی گرفتاری واقعی اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینلز مستقل طور پر اس سلسلہ میں خبریں اور تجزیے چلاتے رہے؟ تحریک انصاف کی قیادت کی تو خیر بات ہی کیا کرنی لیکن جانے کیوں ہمارے کچھ سینئر تجزیہ کار بھی اس گرفتاری کو متنازع بنانے میں لگے رہے۔
بتایا تو یہ گیا ہے کہ فواد چوہدری کے خلاف الیکشن کمشن آف پاکستان کے اراکین اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے پر تھانہ کوہسار میں سیکرٹری الیکشن کمشن کی مدعیت میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اسی سلسلہ میں اسلام آباد پولیس نے فواد چوہدری کو لاہور سے گرفتار کیا ہے۔اگر ایک درج شدہ مقدمہ میں قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے گرفتاری عمل میں لا نے کی حد تک محدود ہے تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اگر اس کے پیچھے کچھ اور محرکات ہیں تو ان کی وضاحت بھی ضروری ہے۔  فواد چوہدری کے خلاف مقدمات تو پہلے بھی درج تھے اور اس نے اس قسم کی گفتگو کوئی پہلی مرتبہ تو نہیں کی۔ اگر اسے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا تو اب ایسا کیا ہو گیا تھا کہ اس کی گرفتاری کو ضروری خیال کیا گیا۔ 
اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح اگر کسی انسان کو اینٹی بائیوٹک دوائی بذریعہ انجکشن دینی درکار ہو تو پہلے اسے ایک ٹیسٹ ڈوز دی جاتی ہے تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ مذکورہ شخص پر اس دوائی کا کوئی ری ایکشن تو نہیں ہوتا۔ اگر محفوظ تصور کیا جائے تو کچھ ٹائم کے بعد دوائی کی مکمل ڈوز لگا دی جاتی ہے۔ حالات سے تو کچھ ایسا ہی لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور فواد چوہدری کی گرفتاری اس سلسلہ کی ٹیسٹ ڈوز ہے۔ چونکہ فواد چوہدری کو عمران خان کا دست راست تصور کیا جاتا ہے اس لیے یہ امر یقینی تھا کہ اس کی گرفتاری پر ردعمل براہ راست عمران خان کی جانب سے آئے گا۔ اب شائد یہ دیکھا جا رہا ہو کہ عمران خان کی ڈائریکٹ کال پر ردعمل کس سطح کا ہوتا ہے۔ ممکنہ طور پر اس کے بعد ہی عمران خان کی گرفتاری کے وقت اور طریقہ کار کو طے کیا جائے گا۔ 
جس طرح ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کے غبارے سے ہواتقریباً نکل ہی چکی ہے اور ان کی کال پراب چند لوگ ہی لبیک کہتے ہیں اس لیے اندازہ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی گرفتاریوں پر کوئی لمبا چوڑا احتجاج نہیں ہو گا۔اور اگر کسی سطح پے ایسا ہوا بھی تواس کا دورانیہ انتہائی مختصر ہو گا۔ 
فواد چوہدری کی گرفتاری کے معاملہ پر تو خیر قانون اپنا راستہ لے گا لیکن اس کے ردعمل میں ایک پارٹی راہنما فرخ حبیب نے جو تماشا لگایا وہ ضرور قابل ذکر ہے۔ موصوف نے موٹر وے ٹول پلازہ پر فواد چوہدری کو اسلام آباد لے جانے والے پولیس سکواڈ کا راستہ روکا اور باقاعدہ ان کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے رہے۔ فرخ حبیب کی اس حرکت کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ اگر فواد چوہدری کو الیکشن کمشن آف پاکستان کے ایک انتہائی ذمہ دار آفیسر کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمہ میں تمام تر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے تو اس کے ردعمل میں اس قسم کی حرکتیں کیوں کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی عمران خان کی گرفتاری کی بات ہوتی ہے مزاحمت پیش کرنے کے لیے تو نوجوانوں کے جتھوں کو بنی گالا یا پھر زمان پارک میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ 
ویسے تو عمران خان ہر حال میں اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں لیکن جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے تو ان اندر کا باغی کچھ زیادہ ہی متحرک ہو جاتا ہے۔شائد اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک ریاست کا ان کے ساتھ رویہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی نرم رہا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو کسی بھی قسم کا ٹیکس اور بل دینے سے منع کرتے تھے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو قانونی راستوں کے بجائے ہنڈی کے راستے ترسیلات بھیجنے کی ترغیب دیتے تھے گویا سول نافرمانی کی ایک کھلی کال دی جاتی رہی اور ریاست نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ اسی لچک کا نتیجہ ہے کہ اب معاملات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کسی بھی قانون کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔  
فرخ حبیب کی حرکت اور خان صاحب کا اپنی رہائشگاہ کے باہر جتھے جمع کرنا بھی یقینا قانون سے بغاوت کے سلسلہ کی کڑی ہیں۔ حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملہ کو کس طرح سے  ڈیل کرتے ہیں یہ تو دیکھنا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا فواد چوہدری کی قانون کے مطابق گرفتاری پر ہی اعلیٰ عدلیہ حرکت میں آتی ہے یا فرخ حبیب کی ایک شاہراہ پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی اور کھینچا تانی پر بھی کوئی ایکشن لیا جاتا ہے۔ 
اگر عمران خان کی ممکنہ گرفتاری میں مزاحمت پیدا کرنے کے لیے بنی گالا یا زمان پارک کے باہر جتھے جمع کیے جاتے ہیں تو یہ ریاست کی رٹ کو ایک کھلا چیلنج ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کی ہماری ریاست نے ماضی کی طرح کسی پریشر گروپ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہی چلے جانا ہے یا پھر اس باغی طرز عمل کا سر کچلنے کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی اٹھانے ہیں۔