معاشی خوشحالی کا سیاسی حل

معاشی خوشحالی کا سیاسی حل

 ہر آنے والا دن پاکستان کو معاشی بحران میں دھکیل رہا ہے، وزیراعظم نے کہا ہے اگر حالات یہ ہی رہے تو معاشی ایمرجنسی لگانا پڑے گی۔ جس کی شدت میں مزید اضافہ اگست 2022 میں آنے والے سیلاب نے کر دیا ہے۔ یہ بحران 2008 کے ساتھ شروع ہوا جب آصف علی زرداری کی حکومت تھی پھر میاں نواز شریف، عمران خان اور اب میاں شہباز شریف کے دور میں شدت اختیار کر گیا۔ 2008 کے آغاز میں جب آصف علی زرداری کی حکومت تھی تو ہر پاکستانی صرف 5 سو روپے کا مقروض تھا آج میاں شہباز شریف کے دور میں 2 لاکھ ستائیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔ پاکستان کے معاشی بحران میں قرض اور سود کی ادائیگی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب جبکہ پاکستان کے پاس 5.6 بلین ڈالر کے زخائر موجود ہیں اس میں بھی 1 بلین ڈالر کی ادائیگی دبئی کے کمرشل بنک کو جنوری 2023 کے اختتام تک کرنی ہے۔ ایک امید سیلاب کی وجہ سے جنیوا کانفرنس میں سیلاب کی تعمیر نو کے لئے 9 بلین ڈالر کی امداد کا اعلان ہونا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ رقم سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے لئے کافی ہوگی یا پاکستان کو بحران سے نکلنے کے لیے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہو گی۔ اگلا یہ سوال ہے اگست 2022 کے سیلاب کی وجہ سے 40 بلین ڈالر کا نقصان ہوا لیکن 2023 میں اگر دوبارہ سیلاب آتا ہے۔ پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ اگر سیلاب آتا ہے تو پاکستان مستقبل میں ناگزیر موسمیاتی آفات سے خود کو بچا سکے گا؟ پاکستان آب و ہوا سے منسلک آفات کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے اور اکیلے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک قلعہ نہیں بنا سکتا۔ واضح طور پر مضبوط گھریلو تیاری کی ضرورت ہے۔ کیا پاکستان کو دی جانے والی رقم سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے استعمال کی جائے گی۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے فنڈز پاکستان کو قرض کی ادائیگی میں مدد کریں گے، لیکن سیلاب زدگان کے لئے رقم ناکافی ہوگی اس کے لئے جنیوا کانفرنس میں شریک ممالک کی امداد سے سیلاب زدگان کی بحالی کا کام شروع ہوسکے گا لیکن مکمل نہیں ہوسکے گا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے تقریباً 40 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اسے قرضوں کی ذمہ داریوں، روپے کی گرتی ہوئی قدر، اور مالیاتی خسارے کے بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کی معیشت بہت نیچے پہنچ چکی ہے، اس کی کرنسی کی قدر گر رہی ہے اور غیر ملکی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور اسے سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا 
ہے۔ 20 دسمبر کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں، کابینہ سیکرٹریٹ نے "ریاست کی مالیاتی آفت" اور فنڈز کی کمی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی حکومت ڈالر کے مقابلے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو واپس لینے میں ناکام رہی ہے جس سے برآمد کنندگان بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباؤ پڑا ہے۔ سرکاری ملازمین کی مراعات اور معاوضوں میں کمی پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسے معیشت کو دوبارہ ریل پر لانے کے لیے کچھ سخت فیصلے کرنا ہوں گے جیسے کرپشن کو روکنا، فوجی بجٹ میں کمی، برآمد کنندگان کو مراعات دینا اور ان کے کاروبار کو آسان بنانا۔
پاکستان کو اگست میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے بیل آؤٹ پیکیج ملا۔ آئی ایم ایف نے (تقریباً 1.1 بلین ڈالر) کی منظوری دی، جس سے انتظامات کے تحت بجٹ سپورٹ کے لیے کل خریداری تقریباً 3.9 بلین ڈالر ہو گئی۔ اس کے باوجود تقریباً تمام معاشی اشاریے منفی رجحان دکھا رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی نے بھی پاکستان میں قیمتوں میں اضافے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن اس نے تجارت کے منفی توازن کو ختم کرنے میں زیادہ مدد نہیں کی۔ پاکستان کی معیشت ساختی افراط زر کا سامنا کر رہی ہے۔ مالیاتی بدانتظامی عام آدمی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ معاشی بدحالی شہباز شریف حکومت کی سیاسی ساکھ کو بھی ختم کر رہی ہے۔ اگر شہباز شریف معیشت کو سنبھالنے کے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے تو وہ شدید پریشانی میں گر جائیں گے کیونکہ یہ عمران خان کے لیے عوامی جذبات کو متحرک کر کے واپسی کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو کامیابی سے آگے لے جائیں کیونکہ اگلے عام انتخابات کے بعد جو بھی دوبارہ اقتدار میں آئے گا وہ اس کامیابی سے مستفید ہوگا۔ تاہم یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی، بار بار سری لنکا کی مثال دی جا رہی ہے، ڈیفالٹ کا شور غیر ضروری طور پر مچایا جا رہا ہے اور اب مالیاتی ایمرجنسی لگانے کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ بظاہر سرمایہ کاروں اور عطیہ دہندگان کو ایک ایسے وقت میں غلط پیغام دینا جب ملک کو سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے بھاری نقصانات کے پس منظر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور امداد کی ضرورت ہے۔ ایسے پروپیگنڈے میں ملوث افراد کو ملک کا خیر خواہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ملک کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے بجائے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشی استحکام کے عظیم مقصد میں اپنا اپنا حصہ ڈالے۔ سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں، تجزیہ کاروں، ماہرین اور علمائے کرام کی بھی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خیالات اور تجاویز پیش کریں جس سے اس مقصد کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔ اس دوران، حکومت کو بھی سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرکے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان رپورٹس کے پس منظر میں فوری طور پر فرض کیا گیا ہے کہ کچھ کمپنیاں پاکستان میں اپنے کاروبار کو سمیٹ رہی ہیں یا اپنے اثاثے فروخت کر رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کاروبار کرنے کی لاگت میں غیر معمولی اضافے سے بچنا مشکل ہے۔
اگر پاکستان کو آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کی طرف جانا ہے تو منی بجٹ، ٹیکسوں میں اضافہ ضروری ہے، ماہرین کے مطابق قیمتوں میں تبدیلی، نئے ٹیکس کے نفاذ اور پرانے ٹیکسوں کی شرح زیادہ کرنے سے مہنگائی میں اضافہ تو ہوگا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہم نے ابھی ایسا نہیں کیا تو پھر مہنگائی کا بوجھ اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔پاکستان میں اگر روپے کی قیمت بہت تیزی سے نیچے جاتی یا رسد میں کمی سے غذائی اشیا یا دیگر اشیا مہیا نہیں ہوتی تو پھر اس سے زیادہ تکلیف دہ مہنگائی ہو گی۔ اس لیے ان کے خیال میں ان فیصلوں سے کوئی راہِ فرار موجود نہیں۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا خیال ہے کہ یہ درست ہے کہ اس وقت 70 کی دہائی میں ہونے والی مہنگائی کے بعد یہ دوسری بڑی مہنگائی کی لہر ہے جس سے اس وقت ملک گزر رہا ہے۔ اس میں بھی غذائی اشیا میں مہنگائی کی رفتار 34 فی صد سے زیادہ ہے جب کہ اس وقت پاکستان ایشیا میں چھٹا ملک ہے جہاں افراط زر کی شرح میں اضافہ انتہائی تیز ہے۔افراط زر کی موجودہ شرح یعنی 25 فی صد اب بھی کم بتائی جارہی ہے اور حقیقت میں یہ 30 فی صد یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان اصلاحات پر عمل کیا تو یہ 35 فی صد سے بھی اوپر چلی جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوتا تو ملک میں افراط زر 50 فی صد یا اس سے زیادہ ہو جائے گا۔ یعنی دونوں صورتوں میں پاکستان کو مشکل فیصلے تو کرنے ہیں۔ مشکلات کو کم کرنے کے لئے ضروری ہے حکومت اور اپوزیشن ایک ایجنڈے "معاشی خوشحالی" پر اکٹھے ہو کر معاشی بحران کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ اس اتحاد سے مشکل فیصلے بھی ممکن ہیں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا بھی۔