5جولائی ابھی جاری ہے

Asif Anayat, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

سن یاد نہیں لیکن 30/35 سال پہلے زبیر رانا گوجرانوالہ بروسٹ بڑے بھائی پاجی اعظم صاحب کا ہوٹل تھا پر تشریف لائے۔ ترقی پسند فکر کے حامی تھے کشمیر ایشو اور قاضی کی سیاست موضوع بحث تھی ظالمو قاضی آرہا ہے کا ورد تھا۔زبیر رانا کے ساتھ نام یاد نہیں کردار یاد ہے اس وقت جو سینئر صحافی کا ساتھ تھا۔ کشمیر ایشو پر تھرڈ آپشن موجود نہ تھی اور کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ زبیر رانا (مرحوم) نے تھرڈ آپشن کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ رانا صاحب! تھرڈ آپشن کی بات کون کرے گا۔ ساتھ ہی میں نے کہا کہ قاضی صاحب کیسے مانیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قاضی صاحب سے ہی ابتدا ہو گی یعنی یہ سب گفتگو اس لئے ہے کہ تھرڈ آپشن کا خیال ان دنوں ماں بہن کا سودا کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ ایٹم بم، اسلامی کانفرنس، آئین سازی، سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، انفراسٹرکچر، شعور، زبان، عزت نفس اور معیار زندگی بلند کرنے والے کو ہم سولی چڑھا چکے تھے۔ کشمیر ایشو پر ہزار سال مرنے کا اظہار کرنے والے شہید ہو چکے تھے۔ ان حالات میں یہ گفتگو جاری تھی۔ کشمیر بعض حلقوں اور سیاستدانوں یا جماعتوں کا مسئلہ نہیں کاروبار رہا ہے مگر مودی کھل نائیک کے ظلم اور مسلسل جبر نے کشمیری عوام کیلئے پاکستان کے بچے بچے کو بہت متاثر کیا یہاں تک کہ میں نے نوجوانوں کو پی ٹی آئی نہیں عام لوگوں کی بات کر رہا ہوں کو کشمیریوں کو پوری دنیا میں روتے دیکھا۔ آج کشمیر کا مسئلہ مودی راکھشس اور کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کشمیریوں کے جذبہ حریت کشمیریوں کی قربانیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں اجاگر ہوا جس کا سہرا یوٹیوب، انٹرنیٹ، فیس بک، سوشل میڈیا ایجاد کرنے والوں کو جاتا ہے۔ ورنہ ظلم جدھر ہوا وہیں دفن ہوا مگر آج ظلم وائرل کرتا ہے۔ آج نیکی بھی وائرل ہوتی ہے لیکن ظلم جو کہ ظلم ہے لہٰذا اس پر لوگوں کا ردعمل لازمی انسانی جبلت ہے۔ ہمارے عمران خان نے وہ بات بطور پالیسی محض انتخابات کیلئے کہہ دی ہے مجھے یاد ہے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا ایک فقرہ ”کہ ہمیں اقتدار چاہئے مگر ہر قیمت پر نہیں“ آج ہمارے وزیراعظم کی پالیسی ہے ہمیں بس اقتدار چاہئے اور ہر قیمت پر”اگلے دن کینیڈا سے برادرم بابر ایوب نے اپنی ٹائم لائن پر ایک ماضی کے حوالے سے پوسٹ لگائی ہوئی تھی جو گجرات کے چوہدریوں کے دباؤ کے آگے نہیں ڈٹ سکا، وہ امریکہ کے دباؤ کے آگے کیسے ڈٹ سکتا ہے؟ جو بابر اعوان، شیخ رشید اور جہانگیر ترین کو Absolutely not کہہ کر آخر میں جھک گیا وہ امریکیوں کو  Absolutely not کیسے کہہ سکتا ہے؟ اللہ کے بندو! کچھ تو عقل سے بھی کام لو مگر یہ بہت تھوڑے نام ہیں کابینہ اور معاونین جن کی انتہائی اکثریت جناب زرداری، جناب نواز شریف، پرویز مشرف کے ادوار کے وزیروں، مشیروں کی ہے یہ ان کو Slightly not بھی نہ کہہ سکے باقی کیا رہ گیا۔ ایک معروف صحافی کو منانے ٹیم لے کر اس کے گھر پہنچ گئے اور جو ان کی وجہ سے حقیقی سیاستدانوں کو ناراض کر بیٹھے اپنے کالموں میں ان کی زبان کی عکاسی کرتے رہے۔ آج اپنی ذاتی حیثیت میں تو باوقار ہیں مگر نظریاتی تبدیلی کو حقیقت سمجھنے کے جرم میں پشیمان ہیں۔ میں عزت دار قلمکاروں اور تجزیہ کاروں کی بات کر رہا ہوں جن کی شکلیں، تصویریں اور چہرے ہی جانبداری کا پیکر ہیں وہ میرا کبھی موضوع نہیں رہے نہ ہی لوگ ان کو کسی توقیر کے قابل سمجھتے ہیں۔
جس ملک میں قبضہ سچا اور دعویٰ جھوٹا قانونی محاورہ ہو، مشتری ہوشیار باش کے اشتہار ہوں مگر لیڈروں کیلئے کوئی تنبیہ نہ ہو وہاں پر انتخابات اور حق حکمرانی کی بات کرنا محض ایک نعرہ تو ہو سکتا ہے مگرمنزل بہت سی قربانیاں مانگتی ہے گو کہ لوگ دے بھی رہے ہیں۔ نواز شریف نے اگر اقتدار میں رہنا ہوتا تو نکلتے ہی نہ مگر آج بھی چند احباب اپنا زور قلم ان کی مخالفت میں صرف کر رہے ہیں حالانکہ موجودہ حکمرانوں کی ہر شعبہ اور ہر لحاظ میں نااہلی، بے ضابطگی، جھوٹ کہہ مکر نیوں اور عوام دشمن پالیسیوں نے سابقہ حکمران اور اپوزیشن کو عوام میں کہیں زیادہ مقبول کر دیا، یہی حقیقت ہے اگرچہ عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ تھی مگر سابقہ حکمرانوں کی کوتاہیوں کا نتیجہ تھا۔ آج ان کے دوبارہ مقبول ترین ہونے میں موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی ہے۔ شہباز شریف نے ایک بار کہا تھا کہ جہاں یوٹرن کا بورڈ لگانا ہو وہاں عمران خان کی تصویر لگا دیں۔ لوگ خودبخود سمجھ جائیں گے کہ آگے یوٹرن ہے چند تصویریں اخبار میں دیکھیں جن میں 
مرادسعید اور ”معاشرتی“ حیوان علی امین گنڈاپور، دوسری میں شہزاد اکبر اور فواد چوہدری تیسری میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ ہیں 5ویں میں شاہ محمود قریشی چینی وزیر سے کہنی ملا رہے ہیں۔6ویں مریم نواز اور جلسہ کے شرکاء، 7ویں میں گورنر چوہدری سرور، 8ویں میں فردوس 9ویں شیخ رشید تنہا 10ویں میں سابقہ میاں بیوی قتل ہوئے پڑے ہیں 11ویں میں یاسمین راشد ہیں 12ویں میں عمران خان اپنے پالتو کتے کے ساتھ پائن کا پودا نتھیا گلی میں لگا رہے ہیں (کیونکہ وہاں درخت بہت کم ہیں) مگر دھیان بیان اور میلان آزاد کشمیر انتخابات کی طرف ہے۔ یہ ایک اخبار کی کہانی ہے باقی اخبارات میں بھی ایسے ہی تصویریں لگی ہوں گی۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ آج میں نے ان لوگوں کا ذکر کیوں کیا۔ 
دراصل ان تصویروں سے ممکن ہے کیپشن پر نظر پڑ گئی ہو مگر مجھے خبر پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑی، ان کی تصویریں بولتی ہیں۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں البتہ محترمہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے بیانات پر ضرور توجہ دیں۔ بلاول بھٹو ریاست کو ریاست کی تعریف اور تعارف یعنی ریاست کے تمام ستونوں کو شامل کر کے ریاست کا نام لیتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کا ہدف ریاست کی طاقت ایک ادارے میں سمٹ آنے کی طرف اشارہ دیتی ہوئی بات کرتی ہیں۔ چوہدری سرور ہومیوپیتھک حکمران ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد تاحال خدمت اور قدرے سچائی کی علامت ہیں۔ باقی حکومتی اہلکاران اور وزراء دن رات نوکری پکی اور عمران خان کی خوشنودی کی خاطر آخرت خراب کر رہے ہیں۔ اس دور میں شیخ رشید کو وزارت تو مل رہی مگر اس کا چھابہ الٹ گیا۔ موصوف بدزبانی بیچتے تھے اب گنڈاپور، مراد سعید، فیض چوہان کو کوئی توجہ نہیں دیتا۔ فردوس عاشق اعوان نے شیخ رشید کی بدزبانی کی دکانداری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔یہ کہتے ہیں ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کشمیر الیکشن میں کامیابیاں لے کر گئے ہیں۔ بالکل حقیقت ہے جھوٹ، منافقت، یوٹرن، بربادی، بدزبان، جھوٹے دعوے، جھوٹے وعدے، انہونی باتیں، بدتمیزی، تاریخ، تمدن، تہذیب سے کھلواڑ یہ اس کامیابی کے ساتھ ہی حکومت سے باہر جائیں گے۔
محترمہ مریم نواز شریف اور محترم  بلاول بھٹو کے جلسے ہی بتا رہے تھے کہ عوام حقیقی حکمرانوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ ان کو یاد دلایا جائے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید 10 اپریل 1986 آمد اور تادم شہادت کیس  پذیرائی اور اسٹیبلشمنٹ کا سٹرا لگا کر نوازشریف کے ہونٹوں سے لگا دیا گیا۔  پیپلز پارٹی کہاں سے کہاں آ گئی، اب نوازشریف اور مریم نواز اکثریتی عوام کے رہنما ہیں اتنے نہیں جتنی محترمہ تھیں اور اتنے رہنما نہیں جتنے گریٹ بھٹو تھے پھر کیا ہوا؟ میاں صاحب کو سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے آزاد کشمیر میں اگر ووٹ آزاد نہیں تو پھر سمجھ جانا چاہئے کہ آزادی کیا ہے؟ عمران خان کا آپشن کہ کشمیر کو بعداز استصواب رائے پاکستان میں موقع دیا جائے گا کہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کہ آزاد؟ کیا یہ سہولت دوسرے صوبوں کو بھی ہو گی اگر ایسا ہوا تو پنجاب ہی پاکستان کے حق میں ووٹ کرے گا۔ نوازشریف گریٹ بھٹو سے اور محترمہ بے نظیر سے زیادہ زیرک ہیں نہ سیاست دان نہ مقبول البتہ ان کا مقدمہ 100 فیصد درست ہے کہ ووٹ کو عزت دو، حق حکمرانی عوام کا حق ہے۔یہ سب گریٹ بھٹوز کے دعوے، نعرے اور نتیجہ گڑھی خدا بخش کا قبرستان ہے مگر نوازشریف کو بقول زرداری صاحب کے سہولت حاصل ہے کہ ان کا ڈومیسائل بہتر ہے آزاد کشمیر میں اگر صحیح نتیجہ دیا جاتا تو ن لیگ 23، پیپلز پارٹی 20، پیپلز پارٹی جموں، تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس صفر پر آتے ہیں۔ جناب زرداری کو سمجھ ہے مگر میاں صاحب کو نہیں کہ 5 جولائی 1977 ابھی جاری ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی  یہ یاد رکھنا ہو گا کہ اب وہ زمانے نہیں رہے  بِلی کے لئے تمام دروازے بند نہیں کرتے۔