بحریہ ٹاؤن کیس: ملک ریاض کو جیل بھیج دیا تو جہاں کرین کھڑی ہے وہیں رہے گی:چیف جسٹس

بحریہ ٹاؤن کیس: ملک ریاض کو جیل بھیج دیا تو جہاں کرین کھڑی ہے وہیں رہے گی:چیف جسٹس
کیپشن: image by facebook

اسلام آباد:پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے ہی ایک اور تین رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کر کے بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ کو لوگوں سے پیسے وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

اس کے علاوہ عدالت نے قومی احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کے خلاف سپریم کورٹ کے ہی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر فیصلہ ہونے تک کارروائی سے روک دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: سیتا وائٹ کیس، عمران خان کے حق میں فیصلہ، انتخابات لڑنے کیلئے اہل
 
  عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے بچوں کے نام جائیداد کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے الاٹیز سے حاصل کی جانے والی رقم کا 20 فیصد عدالت میں جمع کروانے جبکہ 80 فیصد تنخواہوں اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ، عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو ماہانہ آڈٹ رپورٹ بھی جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل کی ساری عدالتی کارروائی میڈیا نے بلیک آؤٹ کردی، کیا آپ کا اتنا اثر و رسوخ ہے؟ کیا آپ نے پیسے تو نہیں لگا دیے؟ ملک ریاض آپ کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔

اس پر ملک ریاض نے کہا کہ ہر چیز میرے نام نہ لگائی جائے، پورے میڈیا میں مجھے ڈان بنا دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ حکومتیں بنانے اور گرانے میں ڈان نہیں بنے رہے؟

جس پر ملک ریاض نے کہا کہ میں نے کیا گناہ کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام چھوڑ دیں، ملک ریاض وہ وقت نہیں رہا، جب آپ کے لیے اگلے ہی دن حکومتیں تبدیل ہوجاتی تھیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے اخراجات کے لیے جتنے پیسے چاہئیں وہ رکھ لیں، ہمیں بتائیں سینیٹ انتخابات میں آپ نے کیا کیا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے سینیٹ انتخابات میں کیا کردار ادا کیا، آپ بس رہنے دیں۔

اس دوران چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ ملک ریاض میں بحریہ ٹاؤن کراچی کا دورہ کرنے کے لیے آرہا ہوں، میں نے حساب کتاب کرکے ایک ایک روپیہ واپس کروانا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ملک ریاض کو جیل بھیج دیا تو جہاں کرین کھڑی ہے وہیں کھڑی رہے گی۔

بعد ازاں عدالت نے ملک ریاض کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر کہا کہ ملک ریاض نے تحریری تجاویز عدالت میں جمع کرادی ہیں جس میں کہا گیا کہ ملک ریاض 5 ارب روپے 15 دنوں میں جمع کروائیں گے۔

عدالت نے  حکم دیا کہ ملک ریاض اپنی اور اہل خانہ کے نام پر موجود جائیدادوں کے کاغذات بطور ضمانت عدالت میں جمع کرائیں گے اور وہ انہیں بیچ نہیں سکتے۔

عدالت نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے تجاویز دی گئی جبکہ ملک ریاض نے 5 ارب روپے بطور ضمانت عدالت میں جمع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے ، عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ 5 ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ دوسری تجویز میں بحریہ ٹاؤن نے کہا ہے کہ وہ اپنی ذاتی جائیداد نہیں بیچیں گے، ملک ریاض کے خاندان کی ذاتی جائیدادیں ضمانت کے طور پر عدالت کو دی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیئے:فواد چودھری این اے 67 جہلم سے نااہل قرار

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ملک ریاض اقساط کی مد میں وصول کرنے والی رقم کا 20 فیصد زر ضمانت کے طور پر سپریم کورٹ کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائیں گے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ میں علیحدہ اکاؤنٹ کھولا جائے گا۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ نیب بحریہ ٹاون کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہ کرے جب تک نظر ثانی کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کیس کا فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہوگئے اور ایک نے ملک ریاض کے حق میں اختلاف کیا، اس لیے نظرثانی کیس میں 5 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے زمین خریدنے والوں سے رقم وصول کرنے کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رقم وصول کرنے سے روک دیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کو 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت جمع کرانے کا حکم دیا تھا جبکہ عدالت نے ملک ریاض سے 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت طلب کیے تھے۔