وزیر اعظم شہباز شریف اور ترکی ماڈل

وزیر اعظم شہباز شریف اور ترکی ماڈل

انسان کی انفرادی زندگی ہو یا قوم کی اجتماعی حالت، کسی طرح بھی جمود کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکیں جنھوں نے زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ خود کو نہیں ڈھالا۔ اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کے عروج و زوال، درپیش چیلنجز اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی سے جڑے نظر آتے ہیں۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں صرف 100 سال قبل دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کی وجوہات جان لیں۔ سلطنت عثمانیہ تین براعظموں مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک پہلی ہوئی تھی۔ اپنے آغاز سے عروج و زوال تک 400 برس دنیا پر غلبہ رکھنے والے عثمانیوں کی لازوال داستان آج تاریخ کا قصہ بن چکی ہے۔ جب تک ترکوں نے جدت اور انصاف کو اپنائے رکھا غالب رہے اور جب شخصی مفادات اور اقربا پروری ریاست پرغالب آئی تو شیرازہ بکھر گیا۔ اب لاکھ جواز ڈھونڈ لائیں لیکن اصل مسئلہ نااہل لیڈر شپ کی مفاداتی سوچ ہی ہوتی ہے۔ لیکن ایک بات کی تعریف کرنا ہو گی کہ ترک قوم نے جلد اپنے زوال کے اسباب کو سمجھا اور اس نکلنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اتاترک کمال کی قومی سوچ کی پالیسی سے شروع ہونے والا یہ سفر اب طیب اردوان کی قیادت میں ایک بین الاقوامی لیڈر کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یورپ کا مرد بیمار ترکی ایک بار پھر بڑی معاشی طاقت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ ترک قوم نے جمہوریت کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر موجود ترکی کو بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح شدید معاشی چیلنجز کا سامنا تھا۔ 1980-90 کی دہائی میں ترکی کی سیاست، معاشرت، صحت، تعلیم سمیت ہر شعبہ روبہ زوال تھا۔ ترکی کے حالات کسی طرح بھی پاکستان سے مختلف نہیں تھے لیکن پھر دو چیزوں پر توجہ دی گئی۔ سب سے زیادہ بجٹ تعلیم کے لیے رکھا گیا۔ اس فیصلے نے معجزہ کر دکھایا۔ اس سے ترکی میں جدیدیت کے رجحان کو تقویت ملی۔ ترک عوام اور معاشرے میں ملک اور وطن کی بہتری کا احساس اجاگر ہوا۔ حب الوطنی کے جذبات کو تعمیری سمت ملنے سے ترقی کا احساس پیدا ہوا۔ اب ترک عوام اچھے اور برے کی تمیز کرنا جان چکے ہیں۔ انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ کون محب وطن ہے اور کون اقتدار کا پجاری، لہٰذا وہ ووٹ سوچ سمجھ کر دیتے ہیں۔ ترک عوام نے ووٹ کو حقیقی عزت دی ہے۔ ذات، برادری اور فرقہ بازی سے نکل کر ترکی کے مفاد کو مقدم کر دکھایا ہے۔ صرف نعرے، وعدے اور دلاسے دینے والوں کے پیچھے لگنا چھوڑ کر کام کرنے والا لیڈر چنا ہے۔ دوسرا بڑا کام حکومت نے معیشت کو سنبھالنے کے لیے تاجروں، سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کو اعتماد میں لیا۔ انھیں اپنی نئی حکمت عملی اور معاشی پالیسیوں 
کا حصہ بنا کر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا۔ ترقی کا یہ سفر اب جاری و ساری ہے۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ترکی کو طیب اردوان جیسا صدر مل گیا۔ جس نے ترکی کو ترقی پذیر کی فہرست سے نکال کر ترقی یافتہ ہونے کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ طیب اردوان ایک سیلف میڈ سیاستدان ہیں۔ انھوں نے بطور معمولی سیاسی ورکر زندگی کا اغاز کیا۔ دوران تعلیم کئی معمولی کاموں سے روزگار حاصل کرتے رہے۔ وہ عام ترک کے مسائل اور درد سمجھتے تھے۔ ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد 1994 میں استنبول کے گورنر بنے۔ اس وقت استنبول کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا تھا جہاں امن تھا اور نہ ہی ترقی تھی۔ اس شہر میں پانی کی قلت، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر، ذرائع آمد و رفت سمیت مسائل ہی مسائل تھے۔ طیب اردوان نے ان مسائل کا ایسا حل نکالا کہ دیکھتے ہی دیکھتے استنبول کا شمار دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ہونے لگا۔ طیب اردوان نے ترک عوام کے دل جیت لیے۔ اس لیے عوام نے پہلے وزیر اعظم اور پھر صدر بنایا۔ طیب اردوان نے پورے ترکی کو اسنبویل ماڈل پر سنوار دیا۔ آج ترکی سیاحوں کے لیے پُر کشش مقام ہے۔ ترکی میں سیاحت سالانہ 35 ارب ڈالر سے زائد کی انڈسٹری ہے۔ حالانکہ خوبصورتی کے اعتبار سے ترکی پاکستان سے 50 فیصد کم کشش رکھتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان بھی انفرا سٹرکچر اور سہولیات کے اعتبار سے ترکی ماڈل اپنا لے تو ایک سال میں یہ انڈسٹری 40 ارب ڈالر سے بھی اوپر جا سکتی ہے۔ سیاحت خوشحالی کا دروازہ ہے۔ اس کے لیے میں پچھلے چار کالموں میں تفصیل سے عرض کر چکا ہوں کہ یہ کام حکومت خود سے نہیں کر سکتی۔ ہمیں گوادر سے لے کر شمالی علاقہ جات تک بہترین سفری، رہائشی سہولیات دینا ہوں گی۔ یہ کام پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت کا کام صرف لا اینڈ آرڈر اور بہترین سکیورٹی کا نظام دینا ہے۔ طیب اردوان نے ایسا ہی کیا۔ سیاحت کے فروغ کے ساتھ اپنی انڈسٹریل مصنوعات کے لیے صنعتکاروں اور تاجروں کو بہترین سہولیات دیں۔ ٹیکس فری انڈسٹریل زونز، ون ونڈو آپریشن کے ذریعے تمام سہولیات اور سرمائے کی حفاظت کے نظام کومتعارف کرایا۔ اس لیے آج ترکی صرف سیاحوں کی نہیں بلکہ سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کی بھی منزل بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے جب ترک فوج نے حقیقی جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کی تو ترک عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جمہوریت کی حفاظت کی۔ اگر لیڈر شپ مخلص ہو تو عوام کی طاقت کے آگے توپیں اور ٹینک بھی کسی کام نہیں آتے۔ ترکی نے زیر زمین سرنگ بنا کر یورپ اور ایشیا کو ملانے اور دنیا کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بنانے کا اعلان کیا تو لندن، امریکہ اور جرمنی کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ اب ترکی نے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کے نام میں تبدیلی کی درخواست دی ہے کہ اسے اب عوامی جمہوریہ ترکیہ کے نام سے پکارا جائے۔ پاکستان ہر اعتبار سے ترکی سے زیادہ صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ ہمارے ملک میں اصل بحران مخلص سیاسی قیادت کا نہ ہونا ہے۔ پالیسی سازی میں ذاتی مفاد سے بالاتر قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستان کے لیے فیصلے کرے۔ سابق صدر جنرل ایوب خان کی مخصوص انڈسٹریل ترقی کے بعد اگر کوئی لیڈر شپ اس ملک کو میسر آئی ہے تو وہ میاں نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہیں۔ نواز شریف کے ادوار میں پاکستان میں موٹر ویز، تعلیم اور صحت پر جس تیزی سے کام شروع ہوا اگر ان کی حکومتیں گرائی نہ جاتیں تو آج پاکستان ترکی سے بھی آگے نکل چکا ہوتا ہے۔ ہم نے گروہی مفادات کی خاطر پاکستان کے عوام کا بہت وقت ضائع کیا ہے۔ ہم مزید وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف مین آف کمٹمنٹ ہیں۔ ان میں اور طیب اردوان میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس جیسے کامیاب منصوبے، صحت و صفائی کا اعلیٰ میعار اور تعلیم کیلئے طلبا کو لیپ ٹاپ دے کر دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے راستے پر کھڑا کر دیا تھا۔ اورنج لائن جیسا شاہکار منصوبہ بھی شہباز شریف ہی کی بدولت ہے۔ میرا یقین کامل ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو اگر ایک سال کیلئے بااختیار طریقے حکومت کرنے دی جائے تو وہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کی اہلیت کھتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اس صلاحیت سے کون واقف نہیں کہ وہ بیورو کریسی سے کام لینے کے ماہر ہیں۔ وہ بزنس کمیونٹی کے نبض شناس ہیں۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ ملک و قوم کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں۔ اس وقت ملک کو ایک ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے جو جرأت مندانہ فیصلے کر سکے۔ میری وزیر اعظم شہباز شریف سے گزارش ہے کہ وہ ملک میں ترقی کے لیے سیاحت کو گیٹ وے بنائیں۔ دنیا کو پاکستان کا راستہ دکھائیں۔ اس کے لیے دو کام کرنا ہوں گے۔ ایک ہمیں میٹرک تک تعلیم لازمی اور مفت دینا ہو گی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے سہولیات میں آسانی پیدا کریں۔ دوسرا مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے سرمائے تحفظ کے لئے پالیسی بنائیں۔ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے تمام کام مکمل ہوں۔ دیکھئے گا پھر پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جس دن عوام کو احساس ہو گیا کہ وہ ترقی کر رہے ہیں۔ خوشحالی ان کے دروازے پر دستک سے رہی ہے۔ پھر وہ اپنی جمہوریت کی حفاظت خود کر لیں گے۔

مصنف کے بارے میں