آپ کی طرف سے بلایا گیا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس غیر قانونی ہے: جسٹس فائز کا چیف جسٹس کو خط 

آپ کی طرف سے بلایا گیا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس غیر قانونی ہے: جسٹس فائز کا چیف جسٹس کو خط 
سورس: File

اسلام آباد : سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بلایا گیا جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس غیر قانونی  ہے۔ اگر اجلاس کا انعقاد انتہائی ضروری ہے تو انہیں سپین سے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک کیا جائے۔ 

چیئرمین جوڈیشل عمرعطا بندیال اور جوڈیشل کمیشن کے ممبر ججز کو لکھے گئے خط میں انہوں نے چھٹیوں میں بلائے گئے اجلاسوں پر 19 اعتراضات اٹھائے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ 28 اور 29 جون کو سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی اور لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججز کی کنفرمیشن کے لیے جو اجلاس بلائے گئے  اس کے لیے انہیں اطلاع نہیں دی گئی۔انہوں نے کمیشن کے سیکریٹری جواد پال پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے جواد پال کے خط اور ان کے ساتھ تین باکسز کی تصاویر انہیں بھیجی ہیں جن میں شاید امیدوار ججز کے کوائف ہوں گے۔

اپنے خط میں انہوں نے لکھا کہ مجھے اس طرح سے اجلاس بلائے جانے پر اعتراض ہے اور وہ بار بار کمیشن کے سیکرٹری کے رویے کے حوالے سے کہہ کہہ کر تھک چکے ہیں۔

اجلاس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اجلاس سپریم کورٹ کی گرمیوں کی چھٹیوں کے وقت میں کیوں بلایا گیا۔ اس کے لیے چھٹیاں ختم ہونے کا انتظار کیا جا سکتا تھا۔لاہور اور سندھ ہائی کورٹ بھی چھٹیوں پر ہیں اور معمول کا کام وہاں بھی رکا ہوا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اپنے خط میں لکھا کہ 20 آسامیاں ایک دم خالی نہیں ہوئیں بلکہ اس سے قبل سالوں سے خالی ہیں۔ ان کی بھرتی کی فوری ضرورت کیوں پڑی؟

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 13 ایڈیشنل ججوں کو حال ہی میں چھ ماہ کی توسیع دی گئی تھی تو پھر ان کے کیسز کو دوبارہ زیر غور لانے کی جلدی کیا تھی؟

خط کے آخر میں انہوں نے کہا ہے کہ ان اجلاسوں کو چھٹیوں کے خاتمے تک ملتوی کیا جائے تاکہ باکسز میں موجود مواد کو تمام ججز زیر غور لا سکیں تاہم اگر اجلاس بلانا ہی ازحد ضروری ہے تو پھر ویڈیو لنک پر سپین سے انہیں بھی اجلاس میں شامل کیا جائے تاکہ وہ اس ’غیر قانونی اجلاس‘ پر بطور سینیئر جج اپنے اعتراضات بیان کر سکیں۔

اس سے قبل بھی گزشتہ ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے خط میں  جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریٹائرڈ ججز کو گاڑیاں فراہم کرنے کی تجویز کو نامناسب اور باعث شرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مطلب ہو گا کہ جج اپنے عہدے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

مصنف کے بارے میں