سو چھید والی جھولی، کوچہ رقیب اور جناب وزیر اعظم

سو چھید والی جھولی، کوچہ رقیب اور جناب وزیر اعظم

فیصلے کی گھڑی، ٹلنے کے باوجود، آہنی ہتھوڑے کی طرح سر پر برس رہی ہے۔ خان صاحب کا خفقان، ہیجان میں بدل رہا ہے۔ اعصاب شل ہو رہے ہیں۔ ان کے حواس پر تشنج کی وہی کیفیت طاری ہے جو بھونچال کے لمحے تھر تھراتی زمین پہ ہوتی ہے۔ ’’دہن‘‘ کے ’’دہانہ‘‘ بن جانے کے باوصف اْن کی بدن بولی کا چونچال پن سنولاتا جا رہا ہے۔ عالمی صورت حال بھی اچھی نہیں۔ مستند ذرائع بتاتے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر ایمونیل میکرون اور ستائیس ملکی یورپی یونین کے قائدین، مسلسل سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کے مرد آہن کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کو کس طرح کامیاب بنایا جائے؟ اجتماعی طور پر روسی صدر پیوٹن سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کچھ دنوں کیلئے یوکرین پر حملے موخر کر دیں تاکہ وہ اپنی توجہ ’’اسلام آباد‘‘ پر مرکوز رکھ سکیں۔ پیوٹن نے خان کی حمایت میں کچھ کہنا چاہا لیکن سب نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ اچھی خاصی تو تکار کے بعد جو بائیڈن نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ’’دیکھو پیوٹن! کان کھول کر سن لو۔ ہم اس مشن پر اربوں ڈالر لگا چکے ہیں۔ شہباز، زرداری اور مولانا کو زبان دے چکے ہیں۔ اگر تم ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے تو نیوٹرل ہو جاؤ ورنہ ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر بائیڈن نے فون بند کر دیا۔شنید ہے کہ پیوٹن نے عمران خان کو پیغام بھیجا کہ ’’گھبرانا نہیں۔ جب تم وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر خطرناک ہو جاؤ گے تو میں تمھارے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوں گا‘‘۔
اْدھر بنی گالہ سے آئی ایک اطلاع کے مطابق خان صاحب کا زیادہ وقت نوافل شکرانہ ادا کرنے میں گزرتا ہے۔ خصوصاً تہجد کے وقت، خشیت الٰہی سے اْن کے بدن پر کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی خواب گاہ سے اٹھ کر اسلام آباد کی سب سے بلند چوٹی پر واقع، اپنے محل کے سبزہ زار میں نکل آتے ہیں جہاں بہار کا اولیں قافلہ اتر چکا ہے اور فضا خوشبوؤں سے لد گئی ہے۔ خان صاحب تاروں بھرے آسمان پر نگاہ ڈالتے اور بہ آواز بلند کہتے ہیں ’’اے باری تعالیٰ! تیرا یہ عاجز و مسکین بندہ کس زبان سے تیرا شکر ادا کرے۔ تو نے میری دعاؤں کو قبولیت بخشی اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپوزیشن کو میرے جال میں لا پھینکا۔۔۔۔۔‘‘ ایک اچھے خاصے سمجھدار دکھائی دیتے شخص نے اگلے دن مجھ سے پوچھا ’’ایک طرف خان صاحب اپوزیشن کو بْرا بھلا کہتے، گالیاں دیتے ہیں۔ قرارداد عدم اعتماد کو عالمی سازش قرار دیتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر، میں تو کب سے اس کی دعائیں مانگ رہا تھا۔۔۔۔ آخر اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ میں نے اْس کی بجھی بجھی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ اس کم فہم و کج فہم مرد بزرگ سے کیا کہوں جو خان صاحب کے اقوال زریں سے مطلب تلاش کر رہا ہے؟
کوئی مطلب ہونہ ہو، خان صاحب کے ارشادات، بلکہ ملفوظات، ایک ہمہ رنگ مرقع ہیں۔ سوچیں تو ایک دبستان سا کھل جاتا ہے۔ ’’چور‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ اب اْن کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ یہ جملہ بڑے تواتر سے بولتے ہیں ’’پاکستان میں پہلی بار۔۔۔۔۔‘‘وہ جو بھی اعلان، اقدام یا کام 
کریں، ڈنکے کی چوٹ بتاتے ہیں کہ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے، یہ بات وہ اس پْر یقین لہجے میں کہتے ہیں کہ سات دہائیوں پر مشتمل پاکستان کی تاریخ کو بھی جْھرجھری آ جاتی ہے۔فہرست تو بہت طویل ہے۔ بطور نمونہ صرف تین چار کارہائے نمایاں کا تذکرہ کافی ہوگا۔ خان صاحب مسلسل کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو گھر بنانے کیلئے پہلی بار آسان قرضے دیئے جا رہے ہیں۔ اب اْنہیں کون بتائے کہ ’’ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (HBFC)نامی ادارہ، اْن کی ولادت باسعادت سے چند ماہ قبل،1952ء میں دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے ہاتھوں قائم ہوا تھا، جس سے گزشتہ ستربرس کے دوران، لاکھوں یاشاید کروڑوں افراد نے فائدہ اٹھایا۔ حال ہی میں صرف سات آٹھ سال قبل، وزیراعظم نواز شریف نے 2014 ء میں "اپنا گھر سکیم" کے نام سے ایک منصوبے کا اجرا کیا۔ جو نہایت کامیابی سے آگے بڑھا، ’’صحت کارڈ سکیم‘‘ کا اجرا بھی 2015 ء میں وزیراعظم نواز شریف نے کیا جس کا دائرہ 2018 تک متعدد شہروں میں پھیل چکا تھا۔ لیکن خان صاحب بضد ہیں کہ اس انقلابی منصوبے کاغنچہ اْن کی شاخِ فکرپہ ہی پھوٹا ہے۔دیامیر بھاشا ڈیم کے تصور نے 1980 ء کی دہائی میں آنکھ کھولی۔ کوئی عالمی ادارہ فنڈز پر آمادہ نہ ہوا۔ کام سست روی سے آگے بڑھا۔ واضح شکل ابھری تو وزیراعظم نواز شریف نے 1998 ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ 2006 ء میں مشرف دور کے وزیراعظم شوکت عزیز نے دوسری بار افتتاح کیا۔ 2011 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تیسری بار افتتاحی تختی لگائی۔خان صاحب نے آبی ذخائر نہ بنانے پر ماضی کے حکمرانوں پر کامل دو برس تک لعن طعن کی اور پھر عزم نو کے پھریرے لہراتے، ایک عظیم الشان قافلے کے ساتھ آگے بڑھے۔ دریائے سندھ کے کنارے شاہی خیمہ لگایا اور 2020 ء میں تین وزرائے اعظم کے ’’سنگ ہائے بنیاد‘‘ پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے اپنے نام نامی کی تختی لگائی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’ایک ڈیم کی نیو ڈال دی۔’’احساس‘‘ کے نام پہ پی۔ ٹی۔ آئی نے رنگارنگ پروگراموں کا مینا بازار سجا رکھا ہے۔ یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا تازہ ایڈیشن ہے جس کی بنیاد 2011 ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے رکھی تھی۔ پی۔ ٹی۔ آئی کے سارے ’’احساسات‘‘ اسی سرچشمے سے پھوٹ رہے ہیں۔ خان صاحب یہ اعلان بھی بڑے تواتر اور تفاخر سے کرتے ہیں کہ ’’میں نے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیئے ہیں۔ ’’اگر وہ وزیراعظم ہاؤس کا ریکارڈ دیکھیں یا لائبریری میں پڑے 2013 ء کے اخباری فائلز دیکھ لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ نوازشریف نے 2013 میں منصب سنبھالتے ہی تمام صوابدیدی فنڈز ختم کر دیئے تھے اور وہ اپنے اس اعلان پہ کار بند رہے۔ 
لیکن اس سب کچھ کے باوجود جب خان صاحب ’’پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’کہتے ہیں توہمیں بلا چون وچرا، اْن کی بات مان لینی چاہیے۔ جھٹلانا خود کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ جو کچھ خان صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے، اور جس طرح وہ برگِ خزاں رسیدہ کی صورت بے مہر ہواؤں کا رزق بنے ہوئے ہیں، ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ پچھلے دو ادوار میں پیپلز پارٹی اپنی حکومت بچانے کیلئے در بدر ہوئی، نہ مسلم لیگ ن خاک بہ سر، اس لئے کہ دونوں کے پاس کسی بیساکھی کے بغیر عددی اکثریت موجود تھی۔ خان صاحب پر ٹوٹنے والی اْفتاد، پاکستانی تاریخ کا پہلا منظر نامہ ہے۔ خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ اْنھیں بلیک میل نہیں کیا جا سکتا، سوا ڈیڑھ سال پہلے کوئٹہ کی سڑکوں پر اپنے پیاروں کی میتوں پر ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی آہ و زاری بھی خان صاحب کے اناگزیدہ دل کو موم نہ کر سکی۔ اْنہوں نے اس وقت کوئٹہ کی زمین پر قدم رکھا جب ہزارہ برادری کی میتیں، زیر زمین جا چکی تھیں، لیکِن اب موسم بدل چکا ہے۔ 
مومن خان مومن کا شعر ہے    ؎
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
خان صاحب کی خودی، انا، مستقل مزاجی، اصول پسندی، شانِ خود داری، اور تفاخر آمیز تمکنت کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکِن وہ مومن کی طرح ہر کوچہ رقیب میں سر کے بل جا رہے ہیں۔ اگرچہ انہیں کبھی اقتدار کا لالچ نہیں رہا۔ نہ کل تھا نہ آج ہے۔ لیکِن نہ جانے کیوں رسوائیوں کی ہر راہ اْنکے لیے مقدس شاہراہ بن چکی ہے۔ ہر نقش پا پہ دور سے نظر پڑتے ہی انکی جبینِ نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپنے لگتے ہیں۔ جھولی میں سو چھید ہونے کے باوجود جھولی پھیلانے، بلکہ پھیلائے رکھنے کیلئے خان صاحب کا حوصلہ چاہیے۔ اور ایسا واقعی ہماری تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں