حکومت اور اپوزیشن میں کورونا پھیلانے کامقابلہ ہورہا ہے ،تجزیہ کار مظہراقبال

حکومت اور اپوزیشن میں کورونا پھیلانے کامقابلہ ہورہا ہے ،تجزیہ کار مظہراقبال
کیپشن: screen shot

لاہور، تجزیہ کا ر مظہرعباس نے کہا ہے کہ ہم بطور قوم آج تک متحد نہیں ہوسکے اگر ہم متحد ہوتے تو کورونا کے مسئلے پر اتنا اختلاف سامنے نہ آتا ۔وہ نیونیوز کے پروگرام لائیوود نصراللہ ملک سے گفتگو کررہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کورونا پھیلانے کا مقابلہ ہورہا ہے ۔ صدر پاکستان کے پاس شائد کوئی اور کام نہیں ہوگا جس کی وجہ سے وہ کاون ہاتھی کی کمبوڈیا منتقلی کی تقریب میں شریک تھے ۔ اگر صدر چاہے تو وہ بہت کچھ کرسکتا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو ہم نے کبھی بھی صحت اور تعلیم کا اہمیت نہیں دی اگر دی ہوتی تو یہ حالات نہ ہوتے ۔ اگر حکومت اپوزیشن کو گرفتار کرتی ہے تو اس سے حکومت کا بھی نقصان ہوگا ۔ اگر جلسہ نہیں ہوتا چار پانچ ہزار لوگ بھی اکٹھے ہوجاتے ہیں تو وہ شہر کو بند کرسکتے  ہیں ۔ 

پروگرام میں موجود تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ 

صدر کے پاس اپنا کرنے کا کوئی کام نہیں ہوتا اس لئے وہ ایسے کام کرتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں وہ سب کچھ ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے ۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم نے جلسے کرنے ہیں حکومت کہتی ہے کہ کورونا ہے نہیں کرنے دینے لیکن مذاکرات کوئی نہیں کررہا ۔ پتہ نہیں یہ وزیراعظم کہاں سے نازل ہوئے ہیں جو مذاکرات نہیں کررہے ۔ دنیا بھر میں جب کوئی وزیراعظم حلف لیتا ہے تو وہ اپوزیشن کو کہتا ہے کہ آئیں ہم مل کر کام کریں لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہی ۔ جب لوگ کورونا کی پہلی لہر میں گھروں میں ڈر کر بیٹھ گئے تھے تو وزیراعظم نے کہا کہ یہ معمولی سا فلو ہے کچھ روز میں چلا جائے گا لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر بہت خطرناک ہے ۔ جو ان کے لئے ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے لیکن دوسروں کے لئے نہیں ۔حکومت  بے پناہ یوٹرن لے چکی ہے سٹیل ملز کا معاملہ بھی عمران خان کے یوٹرن سے ہی جاملتا ہے ۔ جب حکومت طے کرلے کہ اپنی رٹ خود خراب کرنی ہے تو پھر اس کا کوئی حل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم پی ڈی ایم کے جلسے نہیں ہونے دیں گے لیکن جلسے ہوئے مانسہرہ میں ہوا پشاور میں ہوا ۔ حکومت کہے کہ یہ کام نہیں کرنا اور وہ کام پھر ہوجائے تو پھر حکومت کی رٹ کہاں گئی ۔ 

تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے کہا کہ صدر مملکت بہت اچھی زندگی گذار رہے ہیں وہ اس سے قبل بطور ڈینٹسٹ کام کرتے تھے اور ساتھ ہی سیاست بھی کیونکہ پاکستان میں سیاست ایک پارٹ ٹائم کام ہے ۔ ہمارے سیاستدان پیسہ کہیں سے کماتے ہیں رہائش کہیں اور رکھتے ہیں سیاست کہیں اور کرتے ہیں ۔ صدر کے پاس کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہے اس لئے وہ چاہے ہاتھی کو منتقل کریں یا کچھ اور کریں ۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے کو تو نیند ہی نہیں آتی  یہاں پر تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اگر یہ اپوزیشن کو گرفتار کریں گے تو جلسے سے بھی خراب صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔