المناک حادثات

Khalid Mahmood Faisal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, Newspaper, e-paper

گزشتہ دنوں ملتان کی دھرتی پر ایک بہت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس نے ہر دل کو رنجیدہ کر دیا، اگر عام فرد کا یہ عالم تھا تو وہ گھرانہ جو براہ راست اس سے متاثر ہو ا اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ سوشل میڈیا پر بھی گہرے دکھ اور کرب کا اظہار کیا جاتا رہا۔ قوم کی ایک بیٹی ایک حادثہ کی نذر ہو گئی۔ ایک تیز رفتار رکشہ اسکی موت کا سبب بنا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ زکریا یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر کی صاحبزادی اس وقت حادثہ کا شکار ہو گئی جب وہ اپنے مادر عملی سے خوشی خوشی واپس گھر جا رہی تھی۔ وہ جس رکشہ میں سوار تھے، وہ اسکی مستقل سواری تھی۔ اس میں سوار ہو کر وہ روزانہ گھر سے تعلیمی ادارہ حصول تعلیم کے لئے جاتی تھی لیکن اس روز اس کا سفر بخیر نہ ہو سکا اور یہ معصوم طالبہ موت کے منہ میں چلی گئی۔ حادثہ کی جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس کو سامنے رکھا جائے تو دونوں ڈرائیور قصور وار ٹھہرتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق رکشہ ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
بحیثیت مسلمان تو ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ اس کے جو بھی اسباب ہوں ہمیں من و عن سر خم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ایک روایت بتاتی ہے کہ اس کے باوجود احتیاط کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ نبی آخر الزمانؐ ایک خستہ دیوار کے پاس سے گزر رہے تھے تو آپ ؐ نے یہ سفر بھاگ کر طے کیا۔ صحابہ ؓ ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اس کا سبب پوچھا کیونکہ آپؐ کا ہر عمل راہنمائی کے لئے ہوا کرتا تھا لہٰذا آپ ؐ نے فرمایا کہ میں خود موت کو دعوت نہیں دینا چاہتا۔ اس لئے اسلام میں خود کشی بھی حرام قرار دی گئی ہے۔ اس طرح ہر وہ عمل جو جان لیوا ہو، اس کی بھی ممانعت ہے۔ تیز رفتاری بھی اِسی زمرہ میں آتی ہے، لیکن ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے کہ ہم ہر حادثہ کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جبکہ قانون ہمیں اجازت دیتا ہے کہ جس عوامی ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑی حادثہ کا شکار ہو جائے۔ اس میں جانی نقصان ہو تو متاثرین کو ہرجانہ ادا کرنا اسکی تلافی کرنا، کمپنی مالکان کے ذمہ ہے، عمومی رویہ تو ہے کہ ہم نرم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرائیور کو معاف کر دیتے ہیں۔ اس سے ان کے حوصلہ اور بلند ہو جاتے ہیں۔ پھر سے وہ لا پروائی کا مظاہرہ کرتے  رہتے ہیں، یہی معاملہ رکشہ ڈرائیور کا بھی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ہر صبح کیا جاتا ہے۔ وہ چھوٹے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند پرانے رکشوں میں لادتے، بڑی رسکی ڈرائیونگ کرتے بچوں کی جان سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ شب و روز ہوتا ہے تماشا میرے آگے والا، معاملہ قانون کی عین ناک کے نیچے ہوتا ہے۔
حادثہ کی نذر ہونے والی یہ طالبہ نشتر میڈیکل کالج کی تھی۔ رکشے والے کو کیا معلوم کہ یہ محض حادثہ نہیں تھا، یہ اِن تمام خوابوں کی موت بھی تھی جو اس طالبہ نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ یہ قوم کی مسیحا بننے جا رہی تھی۔ اس اعتبار سے یہ ایک لڑکی کی زندگی ہارنے کا واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک قومی سانحہ بھی ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں عام شہری کو صحت کی سہولیات کے لئے کسی اتائی پر انحصار کرنا پڑے وہاں اس طرح کی ڈاکٹر کسی غنیمت سے کم نہیں ہے۔ رکشہ ڈرائیور کی غفلت کی بھاری قیمت اس کے والدین کو بھی ادا کرنا پڑی ہے۔ نجانے کتنی کاوشوں کے بعد اپنی پیاری بیٹی کو داخلہ دلوانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ جہاں ایک ایک نمبر کے لئے جینے اور مرنے کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ خواب جو والدین نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے وہ ایک حادثہ سے چکنا چور ہو گئے۔ اس گھرانے کی تو دنیا ہی بدل گئی۔
اس المناک واقعہ نے ایک یاد کے زخم تازہ کر دیئے جس کا تعلق اسی نوع کے سانحہ سے ہے۔ یہ بھی حادثہ تھا۔ سردیوں کے موسم میں جب شدید دھند پڑ رہی تھی، موٹر وے ابھی باضابطہ طور پر آپریشنل نہیں ہوئی تھی۔ ایک نجی کمپنی کی بس نے ملتان کی طرف رخ کیا تو ڈرائیور کو موٹر وے پر کھڑا ٹرالا نظر نہ آیا جس پر بھاری مشینری لوڈ تھی۔ نتیجہ کے طور پر بس پوری شدت سے اس سے ٹکرا گئی، جس سے جانی نقصان ہوا، اس میں وہ طالبہ بھی شامل تھی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے اپنی ڈگری لے کر گھر کی جانب محو سفر تھی کہ حادثہ کا شکار ہو گئی۔ اس بدقسمت لیڈی ڈاکٹر کا تعلق تونسہ سے تھا، حادثہ الصبح پیش آیا تھا، ذرا چشم تصور میں لائے جب اسکے والدین کو یہ قرب انگیز خبر ملی ہو گی تو کس طرح اِنکی امیدوں پر پانی پھر گیا ہو گا۔ اس کیفیت کو بھلا ڈرائیوروں کی مخلوق سمجھ سکتی ہے، جو انسانوں کی قدر و قیمت سے نابلد ہے۔ ان دونوں حادثات سے انتظامیہ کو قطعی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جن کی غفلت نے دو قیمتی جانیں لے لیں۔
ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ذمہ داران نے اپنے ڈرائیوروں کی کیا تربیت کی ہے، کہ وہ دن کے اجالے میں چلتی ٹریفک میں کوڑا کرکٹ اُٹھا رہے ہوتے ہیں، اس صورت حال میں غفلت کا مرتکب ہونا تو لازمی امر ہے۔ایک طرف ٹریفک قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں تو دوسری جانب ہیوی ٹریفک کا رش آورز میں شہر میں داخلہ کسی بڑے حادثہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالی کے خطرناک حادثات اس سے پہلے بھی ہو چکے ہیں، لیکن اِن پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ کم از کم تعلیمی اداروں کے اوقات کار میں تو ان پر شہر میں داخلہ کی پابندی ہونی چاہئے۔ نیز چنگ چی رکشہ چلانے والے نو عمر لڑکے بھی حادثات کی وجہ بنتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا صدر مقام ٹریفک کے اشاروں سے تاحال محروم ہے جو ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے پوری دنیا میں لازم خیال کئے جاتے ہیں۔ شہر میں انکا وجود سرے سے ہی نہیں ہے۔ ان حالات میں ٹریفک کو بھلا کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
سگنل کی عدم موجودگی کا دباؤ ٹریفک عملہ پر بڑھ رہا ہے، ہر چوراہے میں اِنکی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ وجہ بھی بے ہنگم ٹریفک کو زیادہ خطرناک غلط سمت سے آنے والی ٹریفک بناتی ہے، زیادہ مرتکب رکشہ ڈرائیور اور موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں، بعض گاڑیوں والے بھی شارٹ کٹ کے چکر میں ٹریفک کے مخالف سمت سفر کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ٹریفک کے مخالف بہاؤ کی طرف سفر نہیں کیا جاتا لیکن ہمارے شہر میں یہ مشق تواتر سے دہرائی جاتی ہے، کیونکہ قانون کی گرفت سے ایسے ڈرائیور صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس شہر کو سیف سٹی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے، جس کے لئے ٹریفک کو مہذب بنانا بھی شامل ہے، بصورت دیگر اس نوعیت کے حادثات کا ایندھن وہ افراد بنتے رہیں گے، جو بے قصور ہیں۔ ان کا جرم صرف اتنا ہی ہے کہ انہوں اس شہر میں جنم لیا ہے۔ سکیورٹی کے جلو میں رخت سفر باندھنے والے حاکم وقت کیا جانے کہ جواں اولاد کا دکھ کتنا گہرا ہوتا ہے، جس کی تلافی محض تعزیتی الفاظ کی ادائیگی سے ممکن نہیں۔ حسن ظن ہی ہے کہ ارباب اختیار اب کسی بڑے سانحہ سے پہلے اپنی گورننس کو مثالی بناتے ہوئے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا کر اپنا فرض ادا کریں گے جو ان پر قرض بھی ہے۔