مولانا ظفر علی خان ۔۔۔قومی رہنما، شاعراور بطل حریت!

Sajid Hussain Malik, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, Newspaper, e-paper

شعبہ تدریس سے طویل وابستگی کے دوران مولانا ظفر علی خان کی نظمیں اور نعتیہ کلام پڑھانے کا موقع ضرور ملا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مولانا ظفر علی خان جیسی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہو رہا ہے۔ مولانا ظفر علی خان بلاشبہ ایک جلیل القدر شخصیت تھے۔ بیک وقت صف اول کے قومی رہنما، تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے ایک سربکف مجاہد، ایک خوب صورت قادر الکلام شاعر ، بلند پایہ نثر نگار، ایک نڈر اور بے باک صحافی ، پرجوش خطیب اور بطل حریت ایسے کہ ان کی ہر حیثیت ایک سے ایک بڑھ کر ہے اور ان سب کا ذکر کرنا آسان نہیں ہے۔ 
مولانا ظفر علی خان کو بے مثال شہرت ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ کی وجہ سے ہی نہیں ملی بلکہ ایک قومی رہنما کی حیثیت سے ان کا جو جاندار کردار تھا اور وہ انگریز حکمرانوں اور ہندو مخالفین کو جس طرح للکارتے رہے، جلسہ ہائے عام میں دلوں کو گرماتے رہے، پرجوش قومی نظموں اور اپنے اخبار کے بے باک اداریوں کے ذریعے اہل وطن میں آزادی کی جوت جگاتے رہے، نبی رحمت ؐ کے حضور گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے فرزندان توحید کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی شمعیں روشن کرتے رہے اور کبھی ہندوستان کے ایک کونے میں کبھی دوسرے کونے میں جاکر مسلمانوں کی شیرازہ بندی میں مصروف رہے، یہ سب کچھ اتنا بے مثال اور قابل قدر ہے کہ اقبالؒ کے اس شعر میں دیدہ ور کی جو ترکیب استعمال ہوئی ہے وہ ان پر صادق آتی ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
بلاشبہ مولانا ظفر علی خان ایک ایسے دیدہ ور تھے ، ایک ایسے بطل حریت تھے، ایک ایسے رہنما تھے جو بڑی مدت کے بعد قوم کو نصیب ہوئے۔
مولانا ظفر علی خان کا دور جو انیسویں صدی کے آخری ربع اور بیسویں صدی کے نصف اول پر پھیلا ہوا ہے ، برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا دور شمار ہوتا ہے جب امت مسلمہ میں کئی دیدہ ور پیدا ہوئے۔ اس دورمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒاور حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒجیسی شخصیات کا سکہ ہی نہیں چل رہا تھا بلکہ سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ سے وابستہ اردو زبان و ادب کے شہسوار مولانا الطاف حسین حالی، مولوی نذیر احمد، محمد حسین آزاد اور علامہ شبلی نعمانی جیسے نامی گرامی شعراء ، نثر نگار، مورخ ، محقق، مصلح ، سیرت نگار اور قومی رہنما بقید حیات ہی نہیں تھے بلکہ اپنی قابل قدر علمی ، ادبی ، اصلاحی اور قومی خدمات اور کارناموں کی بنا پر اپنا سکہ جمائے ہوئے تھے۔ ان میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی (علی برادران) بھی شامل تھے کہ برصغیر کے آزادی کی تحریک اور تحریک خلافت میں قائدانہ کردار کی بنا پر پورے ہندوستان میں ان کا نام گونج رہا تھا۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت بھی شامل تھی جنہیں امام الہند کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ان کی 
تصانیف ’’الہلال‘‘، ’’البلاغ‘‘ اور ’’ترجمان القرآن‘‘ کا ہر طرف شہرہ ہی نہیں تھا بلکہ ان کے عالمانہ بیانات اور خطابات بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے تھے۔ یہ دور تھا جب اکابرین دیوبند اور مجلس احرار کے رہنماؤں کو سننے کے لیے لوگ جوق در جوق جلسوں میں آتے تھے اور ان کے ساتھ علامہ عنایت اللہ المشرقی کی خاکسار تحریک کے رضاکاروں کی چپ راست کی صدائیں بھی لاہور کی شاہراوں اور گلی کوچوں میں سنائی دیتی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں اس پر مستزاد شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کے فکر و فلسفے اور ان کی شاعری اور شاعری میں عشق رسولﷺ ، اسلام کی سر بلندی اور خودی کے پیغام کی گونج بھی ہر طرف سنائی دیتی تھی۔ اسی زمانے میں اقبالؒ نے اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے الگ آزاد مملکت کا تصور پیش کیا تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒمسلمانان ہند کے مسلمہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ بلاشبہ یہ برصغیر کی تاریخ کا انتہائی ہنگامہ خیز اور یاد گار دور تھا ۔ اس میں مولانا ظفر علی خان نے نہ صرف تحریک آزادی اور قیام پاکستان کی جدوجہد سے عبارت قومی سیاست میں اپنا ایک ممتاز اور نمایاں مقام بنایا بلکہ ادب و صحافت اور شاعری اور خطابت میں بھی خوب اپنا رنگ جمایا۔ بلاشبہ مولانا ظفر علی خان کو یہ مقام ان کی مسلمانان ہند سے محبت ، آزادی کے لیے ان کی تڑپ، قومی سیاست میں ان کے جاندار اور متحرک کردار اور سب سے بڑھ کر عشق رسولﷺ سے گندھی ان کی بے باک اور نڈر شخصیت کی بدولت حاصل ہوا۔
مولانا ظفر علی خان ایک بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے جنہیں فی البدیہہ شعر کہنے میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ انہیں شاعری میں اپنے اس بلند مقام و مرتبہ کا احساس تھا۔ وہ خود کہتے ہیں۔
حاسدانِ تیرہ باطن کو جلانے کے لیے
تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
مولانا ظفر علی خان کا یہ کمال تھا کہ ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ کے صفحہ اول پر ہر روز ان کی ایک تازہ نظم چھپتی تھی ۔ مشہور صحافی اور مزاح نگار چراغ حسن حسرت جو ایک دور میں ’’زمیندار‘‘ اخبار میں مولانا ظفر علی خان کے رفقائے کار میں شامل رہے انہوں نے مولانا ظفر علی خان جب بقید حیات تھے، ان کے بارے میں ’’ظفر علی خان‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ اس مضمون میں انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی شخصیت، سیرت و کردار، ان کی شاعری، ان کی قومی خدمات اور ان کی مصروفیات و مشاغل پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ مولانا کی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں۔ ’’وہ جو راقم الحروف نے اپنی ایک جہازی غزل میں لکھا تھا کہ :
حقہ پیتا ہے شعر کہتا ہے
اور عاشق میں کیا برائی ہے
تو دراصل مولانا ظفر علی خان کے ہی متعلق ہے۔ بات یہ ہے کہ مولانا حقہ کے بڑے رسیا ہیں۔ جب شعر کہتے ہیں تو حقہ ضرور پیتے ہیں اور حقہ پیتے ہیں تو شعر ضرور کہتے ہیں۔ ان کے شعر کہنے کا انداز یہ ہے کہ حقہ بھروا لیا اور شعر کہنے بیٹھ گئے۔ طبیعت کی روانی کا یہ حال کہ کبھی کبھی فی کش ایک شعر کے حساب سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی خود لکھتے ہیں کبھی کسی کو لکھوا دیتے ہیں۔ اس وقت ان کا انگوٹھا انگشت شہادت پر نیم دائرہ سا بناتا ہوا گھومتا چلا جاتا ہے۔‘‘ آگے چل کر وہ مولانا کی شاعری کے بارے میں مزید لکھتے ہیں ’’مجھے تو یہ کہنا ہے کہ مولانا نے اپنی تمام نظمیں بہت تھوڑے وقت میں کہی ہیں۔ شاید ہی کوئی نظم ایسی ہو جو انہوں نے گھنٹہ دو گھنٹہ میں کہی ہو ورنہ ایک نظم پر عموماً آدھا گھنٹہ سے زیادہ وقت صرف نہیں ہوتا‘‘۔
چراغ حسن حسرت نے مولانا کی سیرت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’مولانا ظفر علی خان کی سیرت چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یوں کہنا چاہیے کہ وہ ہاتھ کے سخی، دل کے نرم، کان کے کچے اور دھن کے پکے ہیں۔ جس طرف جھک پڑے جھک پڑے جو کچھ دل میں ہے وہی زبان پر ہے‘‘۔
مولانا ظفر علی خان کے بارے میں یہ حقیقت بھی حیران کن ہے کہ وہ نیزہ بازی، شہسواری، پیراکی اور کشتی گیری میں بھی بڑے طاق تھے۔ نشانہ بازی میں بھی ماہر تھے اور حیدر آباد کی ملازمت کے دوران کچھ عرصہ فوج میں بھی رہے۔ قصہ مختصر یہ کہ مولانا ظفر علی خان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت رہی نہیں