جنرل عاصم منیر کی تقرری۔۔کیا ہوا تھا؟

جنرل عاصم منیر کی تقرری۔۔کیا ہوا تھا؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کا دور ختم ہوا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ شباب ختم ہوا، عذاب ختم ہوا۔ عاصم منیر ملک کے نئے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے جا رہے ہیں۔ ان کا تقرر تین برس کے لیے ہوا ہے اور اگر تین برس کے بعد حالات معمول کے مطابق رہے تو وہ رخصت ہو جائیں گے ورنہ قوم کے وسیع تر مفاد میں انہیں بھی ایک توسیع مل جائے گی اور مدت ملازمت میں یہی توسیع ملکی سیاست کو ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔ سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ کا چلن عام ہو جاتا ہے اور بہت سے ادارے اپنے آئینی کردار سے بڑھ کر ذمہ داریاں ادا کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف باجوہ کے دور میں نہیں ہوا بلکہ پہلے سے اس کی روایت موجود ہے۔ اب چونکہ توسیع کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ہے تو اس کی امید زیادہ ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ نئے آرمی چیف کو اعتماد میں لے کر توسیع کرنے کے قانونی جواز کو ختم کیا جائے تاکہ ہر آنے والا آرمی چیف پہلے سے توسیع کا موڈ بنا کر نہ آئے اور دوسرے جرنیلوں کی حق تلفی نہ ہو۔ جنرل باجوہ نے صرف سیاستدانوں کو گھر نہیں بھیجا بلکہ ان قابل جرنیلوں کو بھی ریٹائرمنٹ لینا پڑی جن کا حق تھا کہ وہ آرمی چیف بنتے۔ یہ تماشا اگر ختم ہو جائے تو سیاست میں ہیجانی کیفیت از خود ختم ہو جائے گی اور فوج کا سیاست میں عمل دخل بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ حقیقت اب کوئی راز نہیں ہے کہ فوج ملک کے نئے چیف ایگزیکٹو کا فیصلہ کرتی آئی ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کی قسمت فوج کے ہاتھ میں رہی ہے اسی لیے فوجی سربراہ کی تقرری بہت اہم تصور ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن سیاست دانوں نے فوجی سربراہوں کا تقرر کیا وقت آنے پر ان فوجی سربراہوں نے آنکھیں پھیرنے میں ایک منٹ نہیں لگایا۔ جنرل ضیا الحق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنرل مشرف کو بھی نوازشریف نے لگایا تھا لیکن انہوں نے نوازشریف کا دھڑن تختہ کرنے میں ایک منٹ نہیں لگایا۔ جنرل باجوہ کو بھی نوازشریف نے آرمی چیف مقرر کیا اور جنرل باجوہ نے آتے ہی عمرانی پروجیکٹ شروع کر دیا اور ملک میں فوجی جمہوریت قائم ہو گئی۔عمران خان نے خود اس کا اعتراف کیا کہ حکومت تو ان کی تھی مگر اختیار کسی اور کا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قوم کے لیے خدمات کا تعین مستقبل کا مورخ کرے گا مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا دور ہرگز سنہری تھا۔ مجھے فوجی امور کا بالکل علم نہیں لیکن میں سیاسی امور پر گفتگو کر سکتا ہوں اور خود جنرل قمر جاوید باجوہ اس گناہ کو تسلیم کر چکے ہیں کہ فروری 2022 سے پہلے فوج ملک کی سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ کیا ان کا یہ اعتراف فوج کے آئینی کردار سے تجاوز نہیں تھا اور کیا انہوں نے خود اس بات کا اعتراف نہیں کر لیا کہ انہوں نے ماورائے آئین اقدامات اٹھائے۔ اس کے بعد بھی فوج نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ نہیں کیا بلکہ سیاست میں نیوٹرل کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیوٹرل ہونا بھی سیاست میں حصہ لینے کے مترادف ہے۔ فوج کو نیوٹرل نہیں ہونا بلکہ سیاست سے اپنے آپ کو الگ کر کے اپنے کردار کو پیشہ وارانہ امور تک محدود کرنا ہے۔ تحریک انصاف اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ فوج نیوٹرل تھی بلکہ اس کا موقف تو یہ ہے کہ فوج اگر نیوٹرل ہونے کا تاثر دے رہی ہے تو یہ بھی غلط ہے بلکہ فوج کا فرض ہے کہ وہ اسے اقتدار دلائے۔ یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں ہے کہ چوہدری پرویز الہی چند گھنٹوں میں مٹھائی کھانے کے باوجود پی ڈی ایم کو دغا دے کر تحریک انصاف کے ساتھ کیوں چلے گئے تھے اور یہ کال کس کی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی سیاست کو داو¿ پر لگا دیا تھا۔ بعد ازاں پنجاب کے سیاسی حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کونسی خفیہ طاقت تھی جس کی بدولت پرویز الہی اکثریت میں نہ ہوتے ہوئے بھی وزیراعلی پنجاب بن گئے۔
جنرل باجوہ خوشی سے گھر نہیں گئے بلکہ حالات اس قسم کے پیدا ہو گئے تھے کہ انہیں مجبوری کے تحت جانا پڑا۔ تحریک انصاف نے تو پہلے ہی انہیں میر جعفر اور میر صادق کی صف میں شامل کر دیا تھا لیکن حکومت نے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی وجہ سے ان سے دوری اختیار کر لی۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ وہ اپنی مدت میں ابھی توسیع کے خواہاں تھے اور کم از کم مارچ تک مزید ٹھہرنے کے لیے تیار تھے، جلد انتخابات کے لالی پاپ کی وجہ سے تحریک انصاف اس کام کی حامی بھر چکی تھی اور شہباز شریف کو پنجاب دینے کے وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی نیم دلی سے راضی ہو رہے تھے کہ باو¿ جی نے انہیں لندن بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا، پہلے ان کی طبیعت وہاں خراب ہوئی اور ملک پہنچنے کے ساتھ ہی انہیں کرونا ہو گیا۔ نوازشریف نے جنرل باجوہ کو مزید توسیع دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے نئے آرمی چیف کی سمری کو روک لیا۔ ایک ڈیل کے بدلے میں انہوں نے بالآخر سمری روانہ کی اور یوں حکومت نے جنرل عاصم منیر کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے آرمی چیف کی تقرری پر بھی آئینی طریقے سے کھیلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سمری ایوان صدر میں موصول ہوئی تو اگلے ہی لمحے صدر عارف علوی صاحب وزیراعظم کے جہاز میں سوار ہو کر زمان پارک پہنچ گئے۔ باخبر ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کی سمری کم از کم دو دن کے لیے روکنے کے لیے کہا تھا بلکہ اس پر اعتراض لگا کر واپس بھیجنے کی بات کی تھی۔ شائد عارف علوی نے اس پر اتفاق بھی کر لیا تھا اگر ایسا نہیں تھا تو پھر فواد چوہدری نے یہ کیوں کہا کہ اس ملاقات کی تفصیلات شام ساڑھے چھ سے سات بجے کے درمیان ایوان صدر سے جاری ہوں گی۔ یہ اگر مگر کی کہانی نہیں تھی لیکن یہ ضرور سمجھا جا سکتا ہے کہ اس
ملاقات کے بعد فواد چوہدری صحافیوں کو بتاتے کہ عمران خان نے ملک کے وسیع تر مفاد میں اس سمری سے اتفاق کر لیا ہے۔ صدر علوی واپس ایوان صدر پہنچے اور فوری طور پر انہیں یہ اعلان کرنا پڑا کہ صدر نے سمری پر دستخط کر دیے ہیں۔ اگر یہ سب اسی طرح ہی ہونا تھا تو جہاز لے کر عمران خان کے چرنوں میں بیٹھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ عمران خان کو یہ کیوں باور کرایا گیا کہ مائی باپ اب بتائیں کیا کروں؟ بعد ازاں دستخط کیے نہیں بلکہ کروائے گئے اور عمرانی ٹولے پر سکوت مرگ طاری ہو گیا۔ اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے آصف زرداری نے اہم کردار ادا کیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انہوں نے اس عمل کو مکمل کروانے کے لیے قربانی بھی دی اور میاں نوازشریف کو نئے ارینجمنٹ ہر راضی کیا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں بہت سی چیزوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے اور کئی ایسی باتیں کی ہیں جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مشرقی پاکستان کے حوالے سے انہوں نے جو استدلال پیش کیا ہے وہ تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کو انہوں نے فوجی نہیں سیاسی شکست سے تعبیر کیا۔ اپنے الوداعی خطاب میں انہیں حقائق کو سمجھ کر بات کرنا چاہیے تھی۔ 1958 سے لے کر 1971 کے سانحے تک ملک پر فوجی راج تھا اور ملک کی سیاست بھی فوجی چھڑی سے کنٹرول ہو رہی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن محترمہ فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ اور مشرقی پاکستان میں سب سے بڑا حامی تھا۔ مشرقی پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کو اکثریت ملی تھی لیکن فوجی طاقت کے زور پر جنرل ایوب صدر منتخب ہو گئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کس نے سازش رچائی تھی۔ یحیی خان نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کرنے کی بجائے مسٹر بھٹو کے ساتھ کیوں گٹھ جوڑ کیا تھا۔ یہ سب واقعات تاریخ کا حصہ ہیں اور ایک تقریر سے ان حقائق کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے فرمایا لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف گورنمنٹ کے ڈپارٹمنٹس کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ وہاں بہادری سے لڑنے والوں کی قربانیوں سے کیوں کر انکار کیا جا سکتا یقینی طور پر وہ بہت بہادری سے لڑے لیکن اس بات کے بعد ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کا دفاع ہماری ترجیح تھی۔ کیا اتنا بڑا صوبہ جو مغربی پاکستان سے کئی ہزار کلومیٹر کی دوری پر تھا وہاں بھارت کی کئی لاکھ فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے صرف 34 ہزار فوجی ہی تعینات کیے تھے۔ کیا اس اعتراف کے بعد مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے کا کوئی جواز بچ جاتا ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے دفاع کو اپنی ترجیح سمجھا ہی نہیں اور اسے کمزور دفاع کے ذریعے الگ کر دیا۔ کیا فوجی ہیڈکوارٹر میں بیٹھ کر جنگی اور دفاعی منصوبہ بندی کرنے والوں کی یہ ناکامی تصور نہیں ہو گی اور کیا مضبوط مغربی پاکستان کے دفاع کے ذریعے ہم مشرقی پاکستان کا دفاع کر سکتے تھے۔ یہ تو ایسے ہی ہو گا کہ ہم سیاچن پر اپنی فوج ہٹا لیں اور کہیں کہ ہم اس کا دفاع بہاولپور میں مضبوط فوج کے ذریعے کریں گے۔ سچ پوچھیے تو جنرل باجوہ نے 1971 کے سانحہ کا غم ایک بار تازہ کر دیا ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنا ایک بازو کٹوا لیا۔
آخر میں جنرل عاصم منیر کی کامیابی کے لیے بہت سی دعائیں اس امید کے ساتھ کہ وہ فوج کو صرف پیشہ وارانہ امور اور آئینی حدود تک محدود رکھیں گے۔ پاکستان کا مستقبل اسی وقت تابناک ہو گا جب ہم فوج کو اس کے آئینی کردار تک محدود رکھیں گے اور یہ کام الفاظ سے نہیں بلکہ کردار سے ہو گا۔

مصنف کے بارے میں