کھیل کے میدان کو جنگ تصور کرنا

Hameed Ullah Bhatti, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

کھیل کا میدان صحت مندانہ اورتفریحی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے جنگ کا میدان نہیں کھیلیں جسمانی فٹنس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں نتائج میں کسی ایک کو جیتنا اور کسی کو ہارنا ہوتا ہے دونوں اطراف کے کھلاڑی بیک وقت جیت یا ہار نہیں سکتے البتہ کبھی کبھارکھیل برابر رہنے سے ہار جیت کے بغیر ختم ہو جائے یہ الگ بات ہے مگر کھیل کی روح یہ ہے کہ کھلاڑی ہار یا جیت کو زندگی و موت کا مسئلہ نہ بنائے ہارنے والا آئندہ جیت کی تیاری کرے اور جیتنے والا اپنی جیت کو برقرار رکھنے پر توجہ دے لیکن پاک بھارت کھیل محض کھیل نہیں رہا دوملکوں کی عوام کے لیے جنگ کا میدان محسوس ہونے لگا ہے کھلاڑیوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے عوام بھی اعصابی جنگ میں شریک محسوس ہوتے ہیں جس کے دوران ایک دوسرے پر طعن وتشنیع سے بھی گریز نہیں کیا جاتا پاکستانی تو پھر بھی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب سے بھارت میں بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت اقتدار میں آئی ہے ہندوؤں نے اپنے ملک میں اقلیتوں،کھلاڑیوں،اداکاروں کو تختہ مشق بنانے کے ساتھ کھیلوں کا ماحول بھی پراگندہ کر دیا ہے اب کھیل کا میدان کم جنگ کا میدان زیادہ محسوس ہوتا ہے خاص طور پر کرکٹ کے مقابلے کو دونوں ملکوں کی فتح و شکست سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ رویہ کھیل کی روح کے منافی ہے۔
حالیہ جیت پر اِس لیے حیرانگی نہیں کہ پاکستان نے طویل عرصے کے بعد کرکٹ بورڈ کی سربراہی ایسے شخص کو سونپی ہے جس کا اپنا تعلق بھی اسی کھیل سے رہا ہے انہوں نے تعیناتی کے ساتھ ہی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدکچھ ایسی اہم تبدیلیاں کی ہیں جس کے بعد ٹیم میں میرٹ کے سواجگہ حاصل کر نا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے علاوہ ازیں کھلاڑیوں کی میدان کے علاوہ دیگر مشاغل میں ملوث ہونے یا روابط پر کڑی نگرانی کی جانے لگی ہے جس سے خرابیاں بڑی حد تک کم ہوئی ہیں تبھی کم و بیش چھیالیس برس کے بعد پاکستانی ٹیم نے بھارت کو ورلڈ کپ میں شکست سے دوچار کیا ہے حالانکہ امسال بھی بھارت کو توقع تھی کہ وہ پاکستانی ٹیم کو آسانی سے پچھاڑ دے گا لیکن کمزور سمجھنے کی غلطی اُسے لے ڈوبی نیز ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو کر غلطیوں کو نظر انداز کر نے سے شکست کایقینی سامان کر دیا جب ایسے پھوہڑ پن کا مظاہرہ ہوگا توکوئی احمق ہی کامیابی کی توقع کر سکتا ہے۔
بھارتیوں کے دماغ میں ایک خناس یہ ہے کہ پاکستان کی کھیل کے میدان میں شکست دراصل تقسیم ہند کی غلطی کی تصدیق اورپوری امتِ مسلمہ کی ہار ہے یہ سوچ کسی طور صحت مند نہیں اور کسی جنونی کی ہی ہو سکتی ہے مگر یہ سوچ کھیل کی روح پر تازیانے سے کم نہیں پاکستان کرکٹ کے میدان میں ہارتا ہے تو بھارتی ہندو کشمیریوں کو طعنے دیتے ہیں کہ تمہارے حمایتی کو دھول چٹا دی سکھوں اور عیسائیوں پرالگ 
رعب جھاڑاجاتا ہے اب بھی ہار کے بعد ملک میں خوف ودہشت کی فضا بنادی گئی کشمیریوں اور سکھوں پر حملے اور بدترین توڑپھوڑ کی گئی لیکن عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ اِس طرح تو وہ اپنے ہی ملک میں تقسیم کو فروغ دے رہے ہیں یہ بڑھتی تفریق ملکی سالمیت و اتحاد کے لیے زہرِ قاتل ہے جس کا انجام خوشگوار نہیں ہو سکتا اگر بھارتیوں کی یہ سوچ ہے تو پاکستان کی جیت بھی عالمی خوشی کاروپ دھارنے لگی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ حالیہ جیت پر پاکستانیوں اور مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ بنگلہ دیش اور ترکی میں بھی اعتدال میں رہ کر خوشی منائی گئی مگر بھارت کی طرح آپے سے باہر نظرنہیں آئے کھیل کو کھیل سمجھنا ہی کھیل کی روح ہے مذہب اور ملک کی جنگ سمجھنا،حملے کرنا اور املاک کو نقصان پہنچانا انتہا پسندی ہے ایسی سوچ کے مالک کسی طور انسانیت کے بہی خواہ نہیں ہو سکتے نریندر مودی کے حمایتیوں کو غور کرنا چاہیے کہ کھیل کو زندگی وموت کا مسئلہ بنا کر کیوں اپنے ملک میں نفرت کی آگ بڑھکا رہے ہیں؟اِ س کا نقصان سب سے پہلے انہیں ہی ہو گا۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہمسائے ہیں بھارتیوں کے لیے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں 1971میں پاکستان کو دولخت کرکے بھی دہلی نے دیکھ لیا ہے کہ حکومتی سطح پر تناؤ کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کی عوام میں زیادہ دوریاں نہیں حالانکہ بھارت نے بنگلہ دیش میں قتلِ عام کی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت من گھڑت کہانیاں پھیلائیں پاک افواج پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے جن کے بارے غیر جانبدار حلقے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قتلِ عام کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں بلکہ بھارتی فوج اور اُس کی طفیلی تنظیم مکتی باہنی اِس گھناؤنے فعل کی مرتکب ہوئیں اور منصوبے کے تحت پاکستان کے حمایتی اور عام بنگالیوں کو تہہ تیغ کیا وہی کھیل اب کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے پاکستان کی جیت کا غصہ بھی کشمیریوں پر نکالا جاتا ہے لیکن جنونی بھارتی کھیل کے میدان کو جتنی دیر جنگ تصورکرتے رہیں گے اپنے ملک میں ہی معاشرتی اور مذہبی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنیں گے جواب میں پاکستان نے ہمیشہ امن پسندانہ اور دفاعی حکمتِ عملی سے کبھی تجاوز نہیں کیا عمران خان نے اسی حکمتِ عملی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اگر مقبوضہ کشمیر کا معاملہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے تو اُس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں انہوں نے امن عمل اور کرکٹ کو کو آگے بڑھانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا مگر بھارتی حکومت یا جنونی بھی اپنی نتہا پسندانہ سوچ ترک کرنے پر آمادہ ہیں؟جنونیوں کے طرزِ عمل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتاظاہر ہے کشمیر جیسا بنیادی مسلہ حل کیے بغیر دوطرفہ تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔
ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں دس وکٹوں پر مشتمل تاریخی فتح سے نہ صرف پاکستانی ٹیم کو حوصلہ ملا ہے بلکہ اِس فتح سے نیوزی لینڈ اور برطانیہ کی طرف سے یکطرفہ طور پردورے کی منسوخی کا دباؤ بھی کم ہوا ہے یہ فتح پاکستانی کرکٹ کے ساتھ عوام کے لیے بھی کسی طور غیرمعمولی کامیابی سے کم نہیں امید کی جانی چاہیے کہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے کامیابیوں کی شروعات کا سلسلہ پاکستانی شاہین آئندہ بھی قائم رکھیں گے اور پاکستانی شائقین کو نہ صرف اچھے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے بلکہ ٹیم عالمی سطح پر بہتر مقام حاصل کرنے کی منزل بھی حاصل کرلے گی بھارتی عوام کی نفرت و غصے کے اظہار کے باوجود پاک بھارت ٹیموں نے ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا یہی سپورٹس مین شپ ہے لیکن یہ بہت محدود حد تک ہے کیونکہ بھارت میں تو اپنے ہی مسلم کھلاڑی محمد شامی کے خلاف نفرت عروج پر ہے مگر کئی ایک شکستوں کے باوجود پاکستانیوں نے کبھی کسی  غیر مسلم کھلاڑی کے لیے ایسی گھٹیا مُہم نہیں چلائی جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی اپنے ہمسائے بھارتیوں سے زیادہ سوچ میں وسعت رکھتے ہیں انہتا پسندی اور نفرت کو کرکٹ میں لانا کھیل کو جنگ تصور کرنے کے مترادف ہے جس پر نظر ثانی کیے بغیر کرکٹ جیسے کھیل کوتو فروغ نہیں مل سکتا البتہ یہ سوچ دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے مزید دور کر سکتی ہے۔