ارشد شریف کے بعد۔۔۔ Who is next۔۔

ارشد شریف کے بعد۔۔۔ Who is next۔۔

ارشد شریف بھی چلا گیا اس کا جسد خاکی بھی آ گیا اس کے تابوت کو پھولوں سے ڈھک دیا گیا۔ اہل خانہ اور دوستوں کی آہ فغاں بھی لوگوں نے سن لی۔ اتمام حجت یا اہل خانہ، دوستوں اور عوام کے غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اس کا پمز میں دوبارہ پوسٹ مارٹم ہو گا جس کا نتیجہ پہلے پوسٹ مارٹم سے مختلف نہ ہو گا۔ اس کے بعد اسے سپرد خاک بھی کر دیا جائے گا۔ پاکستان سے ایک تحقیقاتی ٹیم بھی کینیا جائے گی لیکن بے نظیر بھٹو کے قتل کا کھرا نہ مل سکا تو یہ ٹیم بھی کیا کر لے گی۔ پھر بھی تحقیقاتی رپورٹ آنے تک کسی فرد یا ادارے کی طرف بے جا انگلیاں نہیں اٹھائی جانی چاہئیں۔ ان سب باتوں سے ارشد شریف واپس نہیں آسکتا نہ کوئی آج تک آیا ہے یہی موت ہے یہی حقیقت ہے۔ بس اتنی سی کہانی ہے موت ایک بڑی حقیقت ہے جانا تو ایک دن سب نے ہے لیکن سوال تب اٹھتے ہیں جب کسی کو راہ عدم پر باقاعدہ جال بچھا کر دھکیلا جائے۔ یہی سب کچھ ارشد شریف کے ساتھ ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے اپنی زندگی کے آخری سفر کے رستے پر کس نے دھکیلا اور اپنے وطن کی زمین ہی اس پر کن قوتوں نے تنگ کی کہ اسے دیار غیر کا رخ کرنا پڑا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا بجا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی ہر پہلو سے تحقیقات ہونی چاہیے لیکن ماضی کھنگالا جائے تو اس طرح کے قتل کی شفاف تحقیقات ایک خواب ہی ہے۔ یہاں تک کہ اطلاعات کے مطابق ہماری حکومت کو اس کا دبئی میں بھی قیام گوارہ نہ تھا اور یو اے ای کی حکومت نے بھی اسے حکومت پاکستان کے دباؤ پر دبئی چھوڑنے کا پروانہ تھما دیا اور وہ مجبوراً اپنی قتل گاہ یعنی کینیا روانہ ہو گیا۔ کینیا اس لیے گیا کہ وہاں ویزے کی جگہ پاکستانی پاسپورٹ پر ایئرپورٹ پر انٹری ہے۔ تحقیقات ہوتی رہیں گی اور اس کے نتائج کچھ بھی نکلیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ارشد شریف اب ہم میں نہیں ہے۔ جتنا ریاستی جبر اس وقت صحافت پر ہے وہ تو ضیاالحق کو بھی مات کر گیا ہے۔ ڈان ٹی وی کے ریاض الحق کے مطابق حکومت کی طرف سے ان لوگوں پر لگام لگانے کے لیے ایک خاموش قانون سازی جو ”سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کو فروغ اور تخلیق کرتے ہیں۔“ حکومت نے ایجنسی کے ایکٹ میں پی پی سی کے آرٹیکل 505 کو شامل کرکے ایف آئی اے کو بااختیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب ٹویٹ کرنے والے، وی لاگ بنانے والے سات سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ اب بتائیں وہ صحافی تنظیمیں وہ میڈیا مالکان وہ ادارے کہاں ہیں جو پچھلی حکومت کی ایسی قانون سازی پر سیخ پا تھے۔ ارشد شریف سے اسلام آباد اکثر ملاقات رہتی لاہور جب بھی آتا مل کر ضرور جاتا اب تو بس یادیں رہ گئی ہیں۔
جس ملک میں خالق پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی سڑک کنارے خراب ایمبولینس میں گزر گئے، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو پنڈی میں شہید کر دیا گیا وہاں بیچارے ارشد شریف کی کیا حیثیت تھی۔ وہ نہ تو سیاستدان تھا نہ ہی کسی 
بڑے گھر کا فرد ایک مزدور پیشہ تھا جس کا کل اثاثہ اس کا پیشہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے گھیر کر ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ ڈرائیور اور گاڑی میں موجود دوسرے لوگوں کا بال بھی بیکا نہ ہوا کیونکہ نشانہ ارشد شریف تھا۔ اس کے ساتھ شہید کا لاحقہ لگا کر لولی پاپ دیا گیا جبکہ وہ مقتول تھا۔ شہید کی موت کی تحقیق نہیں ہوتی کیونکہ وہ پیدا ہی شہید ہونے کے لیے ہے جبکہ مقتول کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ خدا را ارشد شریف کو شہید کہہ کر اس کے قتل پر مٹی نہ ڈالیں۔
میں نے 35 سالہ صحافتی تعلق کا واسطہ دے کر چند ایک حکومتی کرتا دھرتاؤں سے آف دی ریکارڈ پوچھا کہ آپ کی حکومت نے ارشد کو دبئی چھوڑنے کے لیے دباؤ کیوں ڈالا تو کہنے لگے کہ ہماری حکومت کہاں ہے اور یہ بات وزیر اعظم خود بھی کہہ چکے ہیں اور اگر فیصلے ہماری حکومت کے ہوتے تو ہم اپنے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی بلی نہ چڑھاتے۔ اس کا جرم یہ تھا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران جب اس کے سامنے پاک فوج کے خلاف نعرے لگائے گئے تو اس نے انہیں روکا کیوں نہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا۔ اگر یہ الزام ہے تو بالکل ٹھیک ہے بطور وفاقی وزیر قانون اسے ان نعرہ لگانے والوں کو روکنا چاہیے تھا اس کی خاموشی اگر تائید سمجھی گئی ہے تو ٹھیک سمجھی گئی ہے۔ ویسے اگر وہ بھی بلاول زرداری کی طرح بونگی مار دیتا تو ن لیگ کے لیے مسائل بڑھ جاتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرے وزارت خارجہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے تو یہ سوال انہی سے پوچھا جائے۔ اور جب ملک کا وزیر خارجہ بلاول زرداری اتنا بے بس ہو کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جب اس سے ایم این اے علی وزیر کی رہائی کا سوال پوچھا جائے اور لوگ اس کے لیے نعرے لگائیں تو وہ جواب دے کہ یہ نعرے ان ”قوتوں“ کے سامنے جا کر لگائیں جو اسے رہا کر سکتی ہیں تو اس صورتحال میں ہماری کیا اوقات ہے۔ اور بعد میں بلاول کو اپنے بیان پر وضاحت کے ساتھ معافی مانگنا پڑی اور اس کو معاف کر دیا گیا کیونکہ وہ زرداری کا بیٹا تھا اس نے اپنے بیٹے کو بچا لیا ورنہ اس کی وزارت بھی گئی تھی۔ جبکہ ہمارے وزیراعظم شہباز شریف جو ”پالش“ کرنے میں یکتا ہیں نے اپنے وزیر قانون کی قربانی دے کر خود کو بچا لیا۔ تیسرے اس مخلوط حکومت میں ہر پارٹی کی ”پنڈی“ سے ڈائریکٹ ڈیل ہے اور مخلوط معاہدے کے تحت ہم ایک دوسرے کے وزارتی امور میں مداخلت نہیں کر سکتے یعنی یہ ”فرنچائزڈ حکومت“ ہے۔ 
موت یقیناً سب کو آنی ہے اور کسی کی ناگہانی موت پر پتھر بھی پسیج جاتے ہیں لیکن ارشد شریف کی موت پر مریم نواز نے جو ٹویٹ کیا وہ انتہائی شرمناک اور گری ہوئی حرکت ہے۔ گو کہ مریم نے دباؤ پر ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا لیکن اس بے رحم عورت نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ارشد شریف نے کلثوم نواز اور مریم نواز کی بیماری پر اس کی صحت متعلق ٹویٹ کر کے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ارشد کی وفات پر مریم نواز کا ٹویٹ انتہائی بے ہودہ ہے اور مریم کا یہ رویہ تربیت کا فرق بتا رہا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے میرے خدا ہمیں شریف خاندان کی حکمرانی سے بچانا۔ بقول خواجہ آصف مریم نواز کو نہ کوئی شرم ہے نہ حیا۔
کہتے ہیں ”ریاست“ اس قتل کے بعد ردعمل پر چیں بچیں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ میڈیا پر ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے خبروں کی اشاعت کے حوالے سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے عامر متین نے ٹویٹ کے ذریعے ہمارے اداروں سے سوال کیا ہے کہ ”اگر آپ کا ارشد شریف کے قتل میں کوئی ہاتھ نہیں تو پھر ہر چینل کو فون کر کے ڈرایا کیوں جا رہا ہے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔ سیدھا مارشل لا لگائیں اور ہر سرکش کو ارشد شریف کی طرح مروا دیں۔ اتنے ڈرامے کی کیا ضرورت ہے۔“ اس کا جواب ہے کسی کے پاس؟ میری رائے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت آنی چاہیے۔ 
عمران خان نے برملا کہا ہے کہ ارشد کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے اور انہیں اطلاع تھی کہ ارشد شریف کی جان کو خطرہ ہے اور انہوں نے اسے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ بھی معنی خیز تھا کہ سب کو پتہ ہے ارشد شریف کو کس نے مارا۔ ارشد کی والدہ سے تعزیت کرتے ہوئے عمران خان نے تمام ہمت مجتمع کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: ماں جی میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ارشد شریف کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ لیکن ماضی کو دیکھیں تو کچھ نہ ہو گا تھوڑا بہت شور غوغا ہو گا پھر اگلی لاش گرنے تک وہی سکوت۔
کینیا کے اخبار ”دی نیشن“ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کر کے ایک پینڈورا بکس کھول دیا ”ارشد شریف قتل کیس میں اصل حقیقت وہ ہوسکتی ہے جو پولیس رپورٹ میں تحریر نہیں کی گئی“ کینیا میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں دال میں کالا کی خبریں دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ دی نیشن کینیا کی ایک صحافی Josephine N George کی طرف سے ایک آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کرپشن کا کوئی بڑا سیکنڈل بریک کرنے جا رہے تھے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
ارشد شریف کا بیانیہ ان کے پورے صحافتی کیریئر پر حاوی رہا ان کے ناظرین کبھی نہ بھول پائیں گے اس سے پہلے کہ یہ الزامات عدالتی تصدیق یا تردید کی سند پاتے متعلقہ افراد حکومت میں آگئے اور آناً فاناً تمام کیسز لپیٹ دیئے گئے ڈاکٹر رضوان، مقصود چپڑاسی، جسٹس ارشد ملک اور اب ارشد شریف اللہ کو پیارے ہو گئے۔
ہم سب صحافی بھی بے بس ہیں کیونکہ انصاف ریاست سے ہی لیا جاتا ہے اور اب ”ریاست“ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے ہم بھی ہمیشہ کی طرح چند دن شور مچائیں گے اور پھر اگلی نعش گرنے کا انتظار کریں گے کیونکہ ارشد شریف آخری ٹارگٹ نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے دنیا میں صرف طاقتور کا قانون چلتا ہے۔
قارئین اپنی آرا 03004741474 کے وٹس ایپ پر بھجوا سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں