وطن عز یز اور نئی افغان حکومت

Dr Ibrahim Mughal, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

 اس وقت افغانستان تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، مشکلات اور اُمیدیں ایک ساتھ ہیں۔ پاکستان نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ دوحہ امن معاہدے کے نتیجے میں امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ممکن ہوا۔ پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہی موقف رہا ہے کہ جنگ کے ذریعے افغانستان کو پُرامن نہیں رکھا جاسکتا، اسی طرح اب بھی وہاں پر چیزیں مسلط نہیں کی جاسکتیں۔ عالمی برادری چاہتی ہے کہ تمام افغان دھڑے حکومت سازی میں شریک ہوں۔ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور افغانستان میں موجود دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی ہو، اس کے بعد ہی عالمی برادری کابل کو تسلیم کرنے پر غور کرے گی۔ لیکن دوسری جانب افغان طالبان نے یہ بات اشارتاً بھی نہیں کی ہے کہ اُن کی حکومت میں افغانستان کے دیگر اسٹیک ہولڈر اور طاقت کے دھڑے کب شریک ہوں گے۔افغانستان کی نئی حکومت کے عبوری دور میں کم از کم ایسی قابل قبول شخصیات کو شامل کیا جاسکتا تھاجن کا تعلق طالبان کے سوا دیگر گروپوں سے ہوتا، تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ملک کے لیے عطیات دے۔ انسانی ہمدردی کے تحت افغانیوں کی مدد کے لیے کروڑوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب امریکا نے اپنے زیرِ اثر بینکوں میں افغان حکومت کے 20 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیئے ہیں، اگر ان اثاثوں کو منجمد کرنے کے بجائے نئی افغان حکومت کا حق انہیں دیا جائے تو افغان عوام کی پریشانی کم ہوسکتی ہے۔ لیکن عالمی برادری مالی امداد کے نام پر دباؤ کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ ہی نے افغانیوں کے لیے ڈونر کانفرنس کا انعقاد کرایا، جس میں افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک ارب 26 کروڑ ڈالر سے زائد امدادی رقوم کے وعدے کیے گئے۔ گزشتہ برس افغانستان کے سالانہ اخراجات 11 ارب ڈالر کے برابر تھے جس کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ افغانستان کی برآمدات ایک ارب ڈالرز سے کم ہیں اور چند خام برآمدات کے علاوہ بیچنے کو کچھ نہیں۔ اب دنیا کو بیچنے کے لیے بقول ذبیح اللہ مجاہد امارات کے پاس ہے بھی تو دہشت گردی کے خاتمے کا معاوضہ، افیون کی کاشت روکنے کے لیے بیرونی محاصلات اور افغان مہاجرین کے سیلاب کو تھامنے کے لیے مقامی روزگار پیدا کرنے اور 30 لاکھ سے زیادہ اندرونی مہاجرین کی آباد کاری اور ان کی سلامتی کا بندوست۔ ان تینوں کھاتوں پر سالانہ اربوں ڈالرز چاہئیں۔ افغانستان سخت قحط کا شکار ہے۔ تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات او رعملہ نہیں، سکول خالی پڑے ہیں اور سارا ریاستی نظام مشکلات کا شکار ہے۔ یہ ایسے درپیش چیلنجز ہیں جن سے افغان 
طالبان کی حکومت نے مستقبل میں نبرد آزما ہونا ہے۔جو منظر نامہ اُبھر رہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ کابل کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے لیکن مغربی اور علاقائی طاقتیں اس کی دست گیری کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بڑھتے ہوئے انسانی المیے کی وجہ سے پاکستان میں افغان مہاجرین کا سیلاب آجائے گا۔ اس کے وسائل پر مزید دباؤ آئے گا، مقامی افراد کے لیے پریشانی کی فضا قائم ہوگی۔ نیز جرائم اور دہشت گردی میں بھی اضافے کے امکان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت کوتسلیم کرلے تاکہ وہاں امن اور استحکام قائم ہو، مگر واشنگٹن اس درخواست پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس پر غور کرنے کے بجائے امریکی حکومت میں اٹھنے والی طاقتور آوازیں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہی ہیں اور متعدد اقدامات کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔ چونکہ پاکستان کی تجارت، امداد اور قرضہ یورپ اور امریکہ سے جڑا ہے اس لیے پاکستان کے پاس اپنی بات منوانے کے لیے بہت کم گنجائش موجود ہے۔ امریکا، پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ ہم خطے میں اپنی ضروریات کے مطابق کسی مقامی بلاک کا حصہ نہ بنیں، چین سے دوری اختیار کریں اور بھارت کو اپنا بڑا تسلیم کریں۔ امریکی ترجیحات میں اب بھارت سے بہتر تعلقات شامل ہیں۔ امریکہ، چین کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ بہت جلد امریکی صدر جوبائیڈن بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم سے ملاقات کرنے جارہے ہیں جس میں وہ چین کے خلاف اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک اگلے ماہ ہونے والے ایس سی او اجلاس میں پاکستان اور چین کی کابل کی طرف جھکاؤ رکھنے والی کسی بھی غیرمشروط ممکنہ پیش رفت کو ناکام بنانے کے لے مل کر کھڑے ہوسکتے ہیں، یعنی پاکستان کو مشکل دور کا سامنا ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ہمارا افغانستان کے ساتھ مذہبی، ثقافتی، لسانی اور ایک پڑوسی کا تعلق ہے۔ افغانستان میں کچھ بھی ہو اس کے اثرات ہم پر ہی ہوں گے۔ اس حوالے سے دنیا کے لیے پاکستان کا پیغام واضح ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں ایک مستحکم، پُرامن اور خوش حال افغانستان دیکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ جسد واحد کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افغانستان کے آٹو پارٹس بہت مشہور ہیں جو کہ پائیدار اور کم قیمت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ڈرائی فروٹس بھی پاکستان میں وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ کاروبار کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ماحول پُرامن اور سازگار ہو۔خوش آئند بات یہ ہے کہ افغان طالبان نے چین کے ”بیلٹ اینڈ روڈ“ تعاون کو افغانستان اور خطے کی ترقی اور خوش حالی کے لیے سازگار قرار دیا ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان اس میں فعال طور پر شرکت کرے گا۔ دوسری جانب چین کی بھی یہ توقعات ہیں کہ افغانستان کی تمام جماعتیں اپنے لوگوں کی خواہشات اور عالمی برادری کی عمومی توقعات پر عمل کریں گی، ایک کھلا اور جامع سیاسی ڈھانچہ بنائیں گی، ایک اعتدال پسند اور مستحکم قومی اور خارجہ پالیسی کی پیروی کریں گی، مختلف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور دنیا کے تمام ممالک بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ یعنی بین الاقوامی برادری بھی نئی حکومت سازی کے لیے افغانستان کے اقدامات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ افغان طالبان اپنے ملک میں وسیع البنیاد حکومت کی بنیاد رکھیں، ملکی معاملات کو انتہائی مثبت انداز میں چلائیں، تنازعات میں اُلجھنے سے پرہیز کریں تاکہ ملک میں امن قائم اور کسی قسم کی خانہ جنگی، جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، نہ ہو۔ اس وقت گیند افغان کورٹ میں ہے، انہیں جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینا ہوگی۔ تاحال افغانستان حکومت کے ترجمان پریس کانفرنس کے ذریعے ہی اپنے لائحہ عمل کو بیان کررہے ہیں لیکن عملی طور پر وہ کیا کرتے ہیں، اس پر دنیا بڑی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت کو قابل قبول سمت کا تعین خود کرنا ہوگا۔