نسل،خاندان،اور ذات پات

نسل،خاندان،اور ذات پات

ہندوستان کے جاگیردارانہ معاشرے میں نسل، اور ذات پات کے نظریات نے بڑا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد مساوات اور اخوت کے اصولوں کو نظر انداز کرکے،یہاں نسلی و خاندانی بنیادوں پر منصب و عہدے،جاگیریں اور مراعات تقسیم کی گئیں،جس کے نتیجے میں چند خاندان اور ذات پات کے نظریات کو فروغ دیا تاکہ معاشرے کی اکثریت کو ذہنی طور پر متاثر کرکے انہیں نچلے و کم تر درجے پر مطمئن رکھا جا سکے۔ جب مسلمان ہندوستان میں بحیثیت فاتح آئے اور اپنی حکومت قائم کی تو یہ ایک اقلیت کی اکثریت پہ حکومت تھی۔اس لئے اقلیت کی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ان میں احساس برتری پیدا کی جائے تاکہ یہ اکثریت پہ حکومت کر سکیں۔ چنانچہ فاتحین کی اقلیت نے نسلی و خاندانی بنیادوں پر اس احساس برتری کو قائم کیا۔
مسلمانوں کی حکومت کے قیام سے دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کی سیاسی و معاشی و سماجی وجوہات کی بنا پر یہاں کی مقامی آبادی میں لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے۔ان کا ردعمل اہل اقتدار پہ یہ ہوا کہ اگر ان کے ساتھ مساوات کا سلوک کیا جائے تو انہیں بھی اقتدار اور مراعات میں شامل کرنا پڑے گا۔پھر مسلمانوں کی ابتدائی حکومت میں ترک نسل کے افراد کو اعلیٰ عہدے اور منصب دئیے گئے اُن افراد کو جن کو معاشرے کے دوسرے افراد سے الگ اور کمتر سمجھا جاتا تھا۔
جب سلطان غیاث بلبن تخت نشین ہوا تو اس نے ترک اہل اقتدار طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اور اُنہیں مطمئن کرنے کی غرض سے نسلی پالیسی کو فروغ دیا اور سختی کے ساتھ اس بات کی کوشش کی کہ حکومت اور اقتدار کے شعبہ میں،دوسری نسل کے افراد کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو،انہیں شریک نہیں کیا جائے گا۔عہد سلاطین کے مشہور مورخ ضیاء الدین برنی نے سلطان کے ان اقدامت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ:
”اس نے کسی رزیل،بے کار،کم اصل،کمینے اور پست ہمت شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیا بلکہ ایسے لوگوں کے محل کے قریب آنے کا بھی روادار نہ تھا جب تک وہ آدمی کی اصل بنیاد کو نہ جان لیتا کوئی شغل یا کام اُس کے سپرد نہ کرتا“۔
اس سلسلے میں بلبن ہی نے اپنے امراء کو یہ واقعہ سنایا کہ التمش کے زمانے میں بھی ایک مرتبہ اس سے شکایت کی گئی کہ اس کے وزیر نے کم اصل لوگوں کو عہدے دے رکھے ہیں،تو سلطان نے فوراً حکم دیا کہ ایسے لوگوں کے حسب و نسب کی تفتیش کی جائے۔اس بات پر 33عہدے دار ایسے نکلے جو کم اصل تھے چنانچہ انہیں فوراً ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا۔
نسلی برتری و تفاخرکے حامی اس طبقے کے نمائندگی ضیاء الدین برنی نے کی ہے۔برنی کو اس بات کا احساس تھا کہ علمی دنیا میں ذہانت کسی طبقے کی میراث نہیں اور اہلیت و صلاحیت کسی کی جاگیر نہیں۔خصوصیت سے آرام و آسائش،مراعات،اور مقابلہ نہ ہونے سے بر سر اقتدار طبقے کی صلاحیتوں کو زائل کرنا شروع کر دیا تھا،اور ان میں نالائق اور نااہل افراد کی تعداد برھتی ہی جا رہی تھی۔جبکہ مراعات سے محروم طبقہ محنت و مشقت سے اپنی صلاحیتیں اجاگر کر رہا تھا۔اس لیے برنی،نسلی و خاندانی تفاخر کی بنیادوں پر اس نا اہل طبقے کی مراعات کے تحفظ کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس وقت اس ساری کی گئی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار چند خاندانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ ان نسلی اور خاندانی نظریات کے اہم تاریخی اثرات مرتب ہوئے۔مسلمان بااقتدار طبقے نے نہ صرف کہ ہندو اکثریت کو اقتدار سے جدا کیا بلکہ نو مسلموں اور غریب،نچلے مسلمانوں کو بھی معاشرے میں مساوی درجہ نہیں دیا۔
ہندوؤں نے برصغیر میں جو ذات،پات اونچ نیچ کے درجات رکھے وہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بھی شامل ہوتے چلے گئے۔اس سارے تاریخی پس منظر کے بیان کرنے کا میرا ایک خاص مقصد ہے۔کیونکہ اگر ہم آج بھی موجودہ وقت کا موازنہ کریں وہی نشانیاں آج بھی ہمیں ملتی ہیں۔آج اقلیت ہی اکثریت پہ حکمرانی کر رہے ہیں۔آج بھی وہی مٹھی بھر خاندان ہی صاحب اقتدار میں ہیں۔اور آج بھی صاحب اقتدار شخص عام آدمی کو نیچ اور کم تر ہی سمجھتے ہیں جبکہ یہ وہی صاحب اقتدار لوگ ہیں جن کی گا ڑیاں کسی دوسرے کے ڈلوائے ہوئے پٹرول سے چلتی ہیں اور وہی نیچ اور کم ذات اور نچلے طبقے والے لوگ ہی ان کی الیکشن کمپین کرتے ہیں اور وہی لوگ ہی ان کے بینک اکاؤنٹس بھرتے ہیں۔
آج بھی ذات،پات،اور اُنچ نیچ کو ٹکٹوں کی تقسیم میں اہمیت دی جاتی ہے۔جب یہی نسلی لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی تخت نشین ہو جاتے ہیں تو انہی لوگوں کو ہی ان کے درباروں کے قریب سے گزرنے کی اجازت حاصل نہیں ہے۔
اگرچہ نسل،خاندان اور ذات کے بت ظاہری تو ٹوٹ چُکے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں آج بھی اُن کے پجاری موجود ہیں۔آج بھی صاحب عقل اور اہلیت رکھنے والوں اور ذہین لوگوں کو اسی ذات پات کے میرٹ کی وجہ سے اہم عہدوں سے دور رکھا جاتا ہے اور نالائق لوگوں کو حسب نسب کی بنا پہ بھرتی کر لیا جاتا ہے۔
وہ لو گ جو میرٹ بناتے ہیں ان کے نزدیک سماجی،ذات پات،اونچ نیچ معنی رکھتے ہیں۔جسکی وجہ سے پڑھے لکھے طبقے کو آج بھی اقتدار سے دور رکھا جاتا ہے۔میری نظر میں یہی اصل جمہوریت کا قتل ہے۔جس دن پڑھا لکھا طبقہ برسر اقتدار ہوگا اسی دن خاندان، ذات پات کے بتوں کو توڑا جا سکتا ہے اور وہ اقلیت کو مات دے سکیں گے مگر ایسا کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ خاندان جب سے پاکستا ن بنا ہے جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو پوری کی پوری جمہوریت خطرے میں آجاتی ہے اس لیے ملکی ترقی اُسی دن ہو سکے گی جب ذات پات کے اس بت کو تو ڑا جائے گا اور پڑھا لکھا طبقہ برسر اقتدار آئے گا۔

مصنف کے بارے میں