چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل اور چیلنجز!

چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل اور چیلنجز!

اگر آپ کسی صوبے، ضلع اور شہر و قصبے کا نظم و نسق اچھے انداز میں سنبھالنا چاہتے ہیں تو وہاں بہترین ساکھ والی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ بہترین شہرت رکھنے والی انتظامیہ لگا دیں، آپ ہر گزرتے دن اْس شہر کا حلیہ بدلتا دیکھیں گے۔ لیکن پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایسا ”معجزہ“ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ اور پھر اگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نظام کی اگر بات کی جائے، یہاں تو حد درجے تک سیاسی سے زیادہ بیوروکریسی کا کردار رہا ہے، اور پھر ایسا موقع کہ جب ملک میں سیلاب آیا ہو اور آپ کا آدھا صوبہ پانی میں ڈوبا ہو تو ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ انہی ذمہ داریوں کو سنبھالا دینے کے لیے پنجاب میں اچھی شہرت کی بیوروکریسی کو تعینات کیا جا رہا ہے جن میں نمایاں چیف سیکرٹری عبداللہ خان سنبل ہیں جو نہایت قابل آفیسر اور اچھی شہرت رکھنے والے بیوروکریٹ ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 23ویں کامن سے ہے اور وہ فنانس اور ایڈمنسٹریشن کے شعبوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن، سیکرٹری اطلاعات، کمشنر لاہور اور ساہیوال ڈویژن کے عہدوں پر فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ 
اْن کا تعلق میانوالی سے ہے، وہ سابق چیف سیکرٹری حیات اللہ خان سنبل کے بیٹے ہیں۔ ان کے چچا اقبال خا ن سنبل آئی جی پنجاب ہوا کرتے تھے۔عبداللہ خان سنبل بھی اپنے خاندان کے باقی لوگوں کی طرح ذہین آدمی ہیں۔انہوں نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا تھا۔عبداللہ خان سنبل چونکہ خود پسماندہ علاقے سے ہیں تو یقینا اْن کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنوبی پنچاب کے عوام کی بحالی کا ہوگا، جو اس وقت سیلاب کی زد میں آئے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ اْن کے لیے اس سے بھی بڑا چیلنج پورے پنجاب میں یک لخت چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگا۔ ویسے تو اْنہیں یہ چارج 2ہفتوں کے لیے دیا گیا ہے مگر اْن جیسے محنتی اور قابل افسر کی اس وقت صوبے کو اشد ضرورت ہے، اگر وہ مزید عرصہ اس عہدے پر گزارتے ہیں تو یہ اْن کے لیے چیلنجنگ دور ہو گا، کیوں کہ آنے والے دنوں میں اْن کے لیے بڑے بڑے چیلنجز سر اْٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے تو اْنہوں نے پیشگی طور پر سموگ جیسے چیلنج سے نمٹنے کے لیے صوبے میں دفعہ 144 کے نفاذ کا فیصلہ کرتے ہوئے فصلوں کی باقیات اور کوڑا کرکٹ کو جلانے پر پابندی عائد کردی ہے۔انہوں نے افسران کو ہدایت جاری کی ہیں اور کہا ہے کہ صنعتی یونٹ اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی گاڑیوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو تیز کیا جائے۔اس کے علاوہ سٹیل مل اور فیکٹریوں میں غیرمعیاری ایندھن کے استعمال پر پابندی لگانے کے حکم بھی کیے ہیں۔ لیکن اس کام کو سرانجام دینے کے لیے اْن کا اس سیٹ پر ہونا اتنا ہی لازم ہے جتنا ایک قابل افسر کو ہونا چاہیے۔ 
یقینا اْن کا دور مختصر ہے، مگر حکام بالا اگر نظر ثانی کریں اور صوبے کے عوام پر رحم کھاتے ہوئے اچھی شہرت رکھنے والے افسران کو تعینات کریں تو یہ صوبے کے عوام کے لیے بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ بلکہ ایسے افسران تو پورے پاکستان میں لگانے چاہیے تاکہ ہم مشکل دور سے نکل سکیں، ورنہ ہم یونہی بھٹکتے رہیں گے اور ویسے بھی اس وقت صوبے میں سب سے بڑا چیلنج عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے، اس کے لیے صحت کارڈ پروگرام ایکٹو کیا جانا ضروری ہے،حالانکہ یہ اہم ترین منصوبہ 80 ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والا یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام ہے جس کے تحت صوبے کے سوفیصد عوام کو ہیلتھ انشورنس کارڈ کے ذریعے مارچ2022ء تک علاج کی مفت اور معیاری سہولیات دستیاب ہونا تھیں جو بوجوہ تعطل کا شکار ہیں۔پھر لاہور میں بچوں کے لئے برن سینٹراور ملتان میں 200بستروں پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال شروع کئے گئے تھے جبکہ ایسے ہسپتال راجن پور، لیہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں بھی تعمیر کئے گئے تھے وہ بھی التوا کا شکار ہو رہے ہیں، اْنہیں بھی پورا کیا جانا چاہیے۔ پھر گزشتہ مالی سال میں جنوبی پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کے پروگرام کو یقینی بنانے کے لئے تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کا الگ ترقیاتی بجٹ مرتب کیا گیا ہے اور اس مد میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 34فیصد حصہ تفویض کیا گیا۔اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا ضروری ہے۔ پھر لاہور شہر میں پانی کی شدید قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے سرفس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جا رہا تھا۔لاہور کو جدیدترین شہر بنانے اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے راوی اربن پراجیکٹ اور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ جیسے منصوبے شروع کئے جانے تھے۔ پھر سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے قیام سے 6ہزار ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں اور ایک لاکھ سے زائد روزگار کے مواقع پیدا ہونے تھے۔ سیالکوٹ میں ایک ارب 70کروڑ روپے کی لاگت سے سرجیکل سٹی اور 50کروڑ روپے کی لاگت سے سیالکوٹ ٹینری زون کے قیام کے منصوبے پر کام شروع کر دیا گیاتھا۔پھر لاہور میں بہت سے منصوبے التوا کا شکار ہیں، شاہکام چوک پر بھی اوور ہیڈ برج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے،پھر لاہور میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے 10 انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینک بنائے جانے تھے۔واٹر ٹینک بننے سے بارش کے پانی کی بروقت نکاسی ممکن ہو گی۔ ایل ڈی اے سٹی میں کم آمدن والے طبقے کے لئے پہلے مرحلے میں 4 ہزار اپارٹمنٹس بنائے جانے تھے پھر ماحولیات کے حوالے سے پنجاب حکومت کی بہت دلچسپی نظر آئی۔ میواکی جنگل لگانا ہوں یا شجرکاری کے اہداف ہوں اس میں پنجاب حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرتی نظر آئی۔ پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمتوں سے پابندی ہٹائی اور ایک لاکھ سے زائد نوکریاں دینے کی منظوری دی، ان سب پر عمل درآمد کرانے کے لیے قابل افسران کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پھر ان سب چیزوں سے ہٹ کر پنجاب بھر جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے گڈ گورننس کی۔ عبداللہ خان سنبل یقینا یہ سارے مسائل سمجھتے بھی ہیں اور ان کے بارے میں آگہی بھی رکھتے ہیں، میرے خیال میں اگر اْن جیسے افسران کو موقع دیا جائے تو وہ صوبے کی حالت بدل دیں گے۔ کیوں کہ ایسے افسران میرٹ کے خلاف کام کو اپنے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اگر پورے صوبے میں عبداللہ خان سنبل جیسے افسران کو ذمہ داری دے دی جائے تو صوبے میں نئی روح پھونکی جائے گی اور من مانیاں ختم ہو جائیں گی!

مصنف کے بارے میں