سیلاب: ہمارے سیاستدان اور ایثار

سیلاب: ہمارے سیاستدان اور ایثار

ملک کی معاشی صورتحال کا عالم یہ ہے کہ روپے کی قدر کے مقابلے میں ڈالر کی بلند پروازی کو نیچے لانے کے سارے جتن رائیگاں دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے گو کہ کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا تو  لیا ہے۔ لیکن مہنگائی کی شرح اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام بلبلا اُٹھے ہیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب نے پاکستان کے ایک تہائی حصے کو ڈبودیا ہے۔یو این کے سیکرٹری جنرل سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار اور 97 ارب ڈالر کے قرضوں میں جکڑے پاکستان کے لیے عالمی اداروں سے قرضوں میں نرمی اور امداد کے لیے اپیلیں کررہے ہیں۔نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو قرضے معاف کرانے اور امداد لینے کے بجائے عالمی ماحول کو پراگندہ کرنے والے ممالک پر ماحولیاتی تباہی کے ازالے کے  لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصان کا اندازہ اگلے ماہ تک مکمل کر لیا جائے گا اور اس کے بعد اکتوبر اور نومبر میں اسلام آباد میں ڈونرز کانفرنس کے منعقد ہونے کا امکان ہے۔ سیاسی صورتحال سیلاب سے پیدا ہونے والی مشکلات کے برعکس ہے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے اور سیلاب کی تباہی کے ازالے کے بجائے ملک میں انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ آرمی چیف کو نئے انتخابات تک توسیع دی جائے اور نئی حکومت کو بلکہ تحریک انصاف کے مطابق ان کی نئی حکومت کو یہ اعزاز دیا جائے کہ  وہ نئے آرمی چیف کو نامزد کرے۔  
یہ تو تھا ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال کا ایک خاکہ۔مگر اس سرزمین پر ایسے نوجوان بھی لاکھوں میں ہیں جو ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہوکر دکھ اور تکلیف کے اس موقع پر اپنی بساط سے بڑھ کر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے نوجوان دوست وقاص خان ہیں۔ وقاص 
خان دینی اور دنیاوی علوم پر خوب دسترس تو رکھتے ہیں مگر ایک دلِ دردمند بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایثار ہیلتھ سینٹر کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بھی قائم کررکھا ہے۔ جس کے ذریعے   سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں وہ ایثار ہیلتھ سینٹر کے نوجوانوں کے ساتھ محدود  دستیاب وسائل  اور لا محدود جذبے  کے ساتھ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے نکلے۔ انہوں نے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک تحصیل پروواہ کا انتخاب کیا اور وہاں جو مشاہدہ کیا اسے سوشل میڈیا کے ذریعے  ایک زمانے کو بتایا۔  
وقاص خان  بتاتے ہیں کہ جن متاثرین تک گاڑیوں کے ذریعے یا پیدل یا پانی میں چل کر پہنچنا ممکن ہے وہاں تک، پکا ہوا کھانا اور دیگر ضروریات پہنچ رہی ہیں۔اس کے علاوہ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ اور ڈی آئی خان کے ان دیہاتوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راشن پہنچایا گیا ہے۔ یقینا ان لوگوں کو مزید مدد کی ضرورت ہوگی اور اس وقت تک ہوگی جب تک زندگی معمول پر نہیں آجاتی۔،مگر بہرحال وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ 
جن لوگوں کے گھر اور مکانات تباہ ہوچکے، ان کی آباد کاری چاہے سرکار کرے یا فلاحی تنظیمیں، فی الحال اس کا ہونا ممکن نہیں۔ پانی اترے گا، ٹوٹے بند دوبارہ بنیں گے، سڑکیں تیار ہوں گی، راستے کھلیں گے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا۔ 
عام لوگ، نوجوانوں کے گروہ، فلاحی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں یہاں تک کہ تبلیغی جماعت کے لوگ بھی راشن، کھانا، کپڑے اور گھر کا سامان ان علاقوں تک پہنچا رہے ہیں جہاں تک گاڑی کا آخری سٹاپ ہے، اور آگے یا تو وصول کرنے والے لوگ آجاتے ہیں۔یاپھر رضاکار خودکندھوں پر اُٹھائے یہ سامان پانی سے گزر کر ان تک پہنچا رہے ہیں۔ 
 عوام کی طرف سے جمع کیا گیا استعمال شدہ گھریلو سامان، برتن،کپڑے،چادریں اور خشک راشن کے تین ٹرک لاکر تقسیم کیے گئے۔پکا ہوا کھانا دو یا زائد بار آیا۔بدقسمتی سے تقسیم کرتے وقت ضائع بھی ہوا۔ مگر بہر حال لوگوں تک پہنچا۔ تیسری بار پیدل چلنے والی ایک پارٹی کو دیکھا جو پکی ہوئی دیگیں لمبے بانسوں  سے باندھ کر کندھے پر اُٹھائے پانی کے پار آبادی تک پہنچانے جارہی تھی۔ 
میڈیکل کیمپس، میڈیسن اور علاج معالجہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر مزید توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جو دوست احباب کام کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور آگے آئیں۔ 
ڈی آئی خان میں خیمہ بستی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ تقریباََ ہر گھر، سکول، مارکیٹ، سرائے، امام بارگاہ اوردیگر عمارتوں میں لوگوں نے از خود کسی نہ کسی پناہ گزین کو فی سبیل اللہ بسایا ہوا ہے۔
خیموں کی ضرورت پر بہت بات ہورہی ہے۔ اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ خیموں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر، تحصیل پرواہ فصیح عباسی نے بھی صرف ادویات اور خیموں کا کہا۔ لیکن میری رائے اس بابت یوں ہے کہ ہر علاقے سے مقامی رضاکار سامنے آئیں۔ خیمے انھیں اس شرط پر دیئے جائیں کہ وہ ضرورت کے مطابق مختلف خاندانوں کو لگا کر دیں، اور جب خیموں کی ضرورت ختم ہوجائے تو انھی رضاکاروں کو واپس کردیے جائیں، جنھیں یا تو ضلعی انتظامیہ  سنبھال کر رکھے یا واپس فیکٹریوں کے پاس رکھوایا جائے، جہاں سے خریدے گئے ہیں، تاکہ آئندہ کسی بھی ایمرجنسی میں دوبارہ کام آئیں۔ مانتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے مگر ایک بہترین پالیسی ہے۔ 
 ضلعی انتظامیہ یا کے پی کے کی بیوروکریسی اس موقع پر تندہی کے ساتھ کام کررہی ہے وہ لائق تقلید ہے۔ مجھے زندگی میں پہلی بار ان کے رویوں سے لگا کہ لوگ انگریز کی باقیات والی سوچ سے نکل رہے ہیں۔ خواتین بیوروکریٹس کا کردار سب کے سامنے ہے۔ 
اقبال نے شاید ایسے ہی نوجوانوں کے لیے کہا تھا کہ:
جوانوں کو پیروں کا استاد کر 

مصنف کے بارے میں