بھارت کی مذہبی آزادی میں مسلسل کمی ، امریکی ادارے کی سالانہ رپورٹ میں انکشاف

بھارت کی مذہبی آزادی میں مسلسل کمی ، امریکی ادارے کی سالانہ رپورٹ میں انکشاف
کیپشن: image by face book

ممبئی :بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی ادارے یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت  میں مذہبی آزادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

یہ رپورٹ اس لیے اہم ہے کیونکہ یو ایس سی آئی آر ایف ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کا قیام سنہ 1998 میں بین الاقوامی مذاہب کی آزادی کے ایکٹ کے تحت عمل میں آیا تھا۔ اس تنظیم کا کام امریکی حکومت کو مشورہ دینا ہے۔

ادارے کی سنہ 2018 کی رپورٹ میں انڈیا میں مذہبی آزادی کے تعلق سے نریندر مودی حکومت کے رویے پر کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کا کثیر مذہبی، کثیر الثقافتی کردار خطرے میں ہے کیونکہ وہاں ایک مذہب کی بنیاد پر جارحانہ طریقے سے قومی شناخت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس رپورٹ میں انڈیا کی دس ریاستوں اتر پردیش، آندھرا پردیش، اڑیسہ، بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور کرناٹک کا ذکر کیا گيا ہے جہاں مذہبی آزادی کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ انڈیا کی باقی ریاستوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں مذہبی اقلیتیں زد پر نہیں ہیں۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے رواں سال 12 ممالک کو دوسرے درجے میں رکھا ہے جنھیں 'كنٹريز آف پرٹیكولر كنسرن' یا سی پی سی کہا گیا ہے ،  یہ ایسے ممالک ہیں جہاں مذہبی آزادی کے تعلق سے حالات تشویش ناک ہیں، ان ممالک میں افغانستان، آزربائیجان، بحرین، کیوبا، مصر، انڈیا، انڈونیشیا، عراق، قزاقستان، لاؤس، ملائیشیا اور ترکی شامل ہیں۔

بھارت  کے حوالے سے مخصوص پانچ صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت  کے 'وزیراعظم تشدد کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت کے لوگ انتہا پسند ہندو تنظیموں سے منسلک ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد مذہبی اقلیتوں کے تعلق سے ناروا زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مودی حکوت نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

اس رپورٹ میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے متاثرین کو انصاف نہ ملنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے,اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مودی انتظامیہ نے ماضی میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔ ان میں سے کئی پر تشدد فسادات ان (مودی) کی پارٹی کے لوگوں کی اشتعال انگیز تقاریر کے سبب ہوئے۔