بیجنگ :چین اور بھارت کے اپنی مشترکہ سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے نئے اقدامات چین کے شہر ووہان میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق ہو گیا ۔،
President Xi to PM Modi: in my over 5-year presidency, I have only gone out of Beijing twice to receive foreign guests. Once in Xi'an in 2015, the other is today, Both for you. This shows how much President Xi values his personal friendship with PM Modi and China-India relations. pic.twitter.com/OSXs7JycxS
— Luo Zhaohui (@China_Amb_India) April 28, 2018
غیر رسمی ملاقات میں عسکری اور سیکیورٹی رابطوں کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا،خیال رہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان تعلقات میں بہتری پر دو روزہ غیر معمولی بات چیت گذشتہ برس متنازع ہمالیہ خطے میں صورتحال کشیدہ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہی ہے۔
Delighted to meet President Xi Jinping in Wuhan. Our talks were extensive and fruitful. We deliberated on stronger India-China relations as well as other global issues. pic.twitter.com/1lfcDp4jRM
— Narendra Modi (@narendramodi) April 27, 2018
یہ تنازع گذشتہ برس سکّم کی سرحد کے نزدیک بھوٹان کے ڈوکلالم خطے سے شروع ہوا تھا جہاں چینی فوج ایک سڑک تعمیر کرنا چاہتی تھی ، بھوٹان کا کہنا تھا کہ یہ زمین اس کی ہے۔ بھارتی فوجیوں نے بھوٹان کی درخواست پر چینی فوجیوں کو وہاں کام کرنے سے روک دیا۔ چین نے انتہائی سخت لہجے میں انڈیا سے کہا کہ وہ اپنے فوجی، بقول اس کے، چین کے خطے سے واپس بلائے , بعد میں دونوں ملکوں میں معاہدے کے بعد انڈین فوج ڈوکلام میں پیچھے ہٹ گئی۔
Taking India-China relations on a forward-looking path, charting the future direction of the relationship! PM @narendramodi and Chinese President Xi take a walk together along the East Lake in Wuhan today morning. pic.twitter.com/KzBSbgR4dB
— Raveesh Kumar (@MEAIndia) April 28, 2018
بھارتی وزیراعظم مودی اور چینی صدر شی اپنے اپنے دارالحکومت سے دور بغیر اپنی ٹیم کے تعلقات بہتر بنانے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کے پاس دراصل کوئی حتمی ایجنڈا نہیں تھا اور بڑھتے ہوئے اختلافات پر بات کرنے کے لیے بھی اچھا خاصا وقت تھا۔
بھارت سمجھتا ہے کہ گزشتہ برس کا بحران دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک خطرناک موڑ پر لے آیا تھا ، خاص کر جب ملک میں 2019 میں عام انتخابات کا ہونے جا رہا ہے ، اس سے زیادہ وسیع تناظر میں یہ بھی ہے کہ چین کی معیشت بھارت کے مقابلے میں پانچ گنا بڑی ہے اور اس کے دفاعی اخراجات تین گنا زیادہ ہیں۔
بھارت کو سرحد پر مقامی سطح پر تو کئی طرح سے عسکری برتری حاصل ہے لیکن اسے اب بھی اپنی طاقت میں اضافے کے لیے وقت درکار ہے، دوسرا یہ کہ انڈیا چاہتا ہے کہ اسے ان معاملات پر چین کا تعاون حاصل ہو جہاں پر چین کا کردار اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور جوہری تجارت کے سپلائرز گروپ یعنی این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنا۔
حالیہ برسوں میں بھارت کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ اپنے ابھرنے کی راہ میں چین کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے، تیسرا پہلو یہ ہے کہ انڈیا عالمی سیاست کے ایک غیر یقینی ماحول میں اپنا ردِ عمل دے رہا ہے۔ انڈیا کو تشویش ہے کہ شمالی کوریا کے بحران کی وجہ سے بیجنگ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر لے گا اور اس کے بعد روس کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری لائے گا کیونکہ روس کے مغربی ممالک سے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں , اس لیے بہتر ہے کہ انڈیا دونوں جانب دوستی رکھے۔
چین اور روس کے مضبوط ہوتے تعلقات اور امریکہ کے روس سے نمٹنے کے لیے چین پر سے نظریں ہٹانے پر انڈیا کے سابق سفارت کار اور انڈیا کی حکومت کو قومی سلامتی پر مشورہ دینے والی ایک کمیٹی کے رکن پی ایس راگوان کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے دانشمندانہ طرز عمل یہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ مربوط بات چیت کو برقرار رکھے چاہے دونوں بڑی طاقتوں کو یہ ناگوار ہی گزرے۔
اس میں چین کے لیے بھی فائدے کی بات ہے کیونکہ گذشتہ برس دنیا میں انڈیا وہ واحد ملک تھا جس نے ایشیا کو سڑک اور ریل کے ذریعے یورپ سے جوڑنے کے چین کے دنیا کے ایک سب سے بڑے منصوبے کی مخالفت کی تھی۔