دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

پختہ سیاست میں معتدل مزاجی پہلی شرط ہوتی ہے لیکن بعض اوقات مقابل نقطۂ نظر کو شکست فاش دینے کے لیے لیڈڑ آئیڈیل راستے سے ہٹ کر محض اپنے مد مقابل کو چت کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ زور لگا دیتا ہے جس کی اسے بعد میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے حالیہ سیاسی ڈیڈ لاک میں تدبیر کی یہ غلطی دونوں طرف سے ہوئی ہے۔ اقتدار سے نکالے جانے والوں کو تو اس کا احساس ہو چکا ہے مگر اقتدار میں آنے والوں کے لیے ابھی احساس ہونا باقی ہے کچھ وقت کا انتظار ہے کہ وہ گزر جائے۔ گویا کہ بقول شاعر
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
پی ڈی ایم تحریک کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں اس وقت کی حکومت کہتی تھی کہ 2023ء سے پہلے یہ ممکن نہیں بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہتے تھے کہ اگلا الیکشن بھی ہمارا ہے لہٰذا اپوزیشن 2028ء تک انتظار کرے پھر وقت اتنی تیزی سے بدلا کہ سابق وزیراعظم کو اتنی مہلت ہی نہ مل سکی کہ وہ عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل کر سکیں بلکہ مرضی سے معاملہ حل کرنے کی سعیٔ لاحاصل میں وہ آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔ محض اس خواہش کے لیے کہ نئے انتخاب کرائے جا سکیں لیکن ان کی اس خواہش کے راستے میں آئین و قانون حائل ہو گیا اور انہیں بہت بے آبرو ہو کر اس کوچے سے کوچ کرنا پڑا۔ یہ تدبیر کی غلطی تھی جس کے تہہ میں ان کے عاقبت نااندیش مشیروں کے غلط مشورے تھے۔ 
اب تدبیر کی یہ غلطی ان کی جگہ آنے والی نئی حکومت کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی پارٹی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے نئے انتخابات کو واحد حل قرار دیتے رہے مگر جب ان کے پاس نئے انتخابات کا موقع آیا تو اپنے دیرینہ مطالبہ کے برعکس انہوں نے ایک سال کے لیے ہی سہی اقتدار کی بہتی گنگا میں اپنے خشک لب بھگونے کا فیصلہ کر لیا جس میں غالب وجہ عوامی مفادات نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کی ذہنی اذیت سے لطف اندوز ہونا تھا۔ ن لیگ نے پی ڈی ایم کے حصہ داروں کے ساتھ جن کڑی شرائط اور خود سپردگی کے ساتھ اقتدار قبول کیا ہے، ایسا ان سے توقع نہیں تھی اس سے بہتر ہوتا کہ اگر ملک میں نئے انتخابات 
کی راہ ہموار ہو جاتی۔ صاف لگ رہا ہے کہ جیسے پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ نے گزشتہ حکومت کی 4 سالہ ناکامیوں کو ایک سال کے اپنے اقتدار کے عوض سارا ملبہ اپنے اوپر ڈالنے کا خطرہ مول لے لیا ہے اور ن لیگ کے لیے اس میں اضافی یہ ہے کہ اقتدار ایک درجن جماعتیں انجوائے کریں گی مگر ناکامی کا کھاتہ شہباز شریف اور ان کی حمایت کے نام پر کھلے گا گویا وہ تحریک انصاف کے سیاسی گناہوں کے علاوہ پی ڈی ایم کے گناہوں کا بوجھ بھی کندھوں پر اٹھائے اگلے سال کے نئے انتخابات میں  جائیں گے جو کہ مہنگائی کے اس دور کی سب سے بڑی قیمت ہے۔ 
اس پس منظر میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب برائے عمرہ کی گونج ہے جس میں محسن داوڑ کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا ہے وہ حکومتی حلیف ہیں مگر ان پر ریاست کے خلاف سرگرمیوں پر مقدمات قائم ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ محترمہ مریم نواز شریف کی عمرہ کی ادائیگی کے لیے پاسپورٹ واپسی کی درخواست میاں نواز شریف کی اپنے بیٹوں سمیت عمرہ پر روانگی اور وہاں سے پاکستان آمد کی خبروں نے شہباز شریف کے لیے خاصی مشکلات پیدا کر دی ہیں یہاں تک کہ ن لیگ کے ایک قریب ترین حامی تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ عمرہ ایک نفلی عبادت ہے اور مریم نواز کو چاہیے تھا کہ کچھ دیر اور انتظار کر لیتیں۔ 
ضمنی طور پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے مریم نواز کی درخواست کی سماعت سے معذرت کی بنا پر اب تک 3 بنچ ٹوٹ چکے ہیں دیکھیں چوتھے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی رجحانات نے عدالتوں کے جج صاحبان کو کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے۔ فیصلہ حق میں آئے تو ٹھیک ہے خلاف آجائے تو عدالتوں پر کھلے عام الزام لگا دیا جاتا ہے کہ جج بک گئے ہیں۔ مریم نواز کا کیس اس معاملے میں ایک عدالتی نظیر کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسری طرف دفاعی اور عدالتی ادارے سخت ذہنی پیچیدگی کا شکار ہیں کہ اقتدار سے محروم ہونے والی جماعت نے قومی اداروں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف سر عام دفاعی اداروں عدالتوں قومی الیکشن کمیشن یا جو بھی ان کے راستے میں آتا ہے وہ اس کے تقدس کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں یہ ایک خطرناک صورت حال ہے کہ اس کا کیا حل نکالا جائے۔ فارن فنڈنگ کیس کے سارے Merits تحریک انصاف کے خلاف جا رہے ہیں اور اس میں چیئرمین عمران خان بقلم خود الیکشن کمیشن کی زد میں ہیں لیکن انہوں نے فیصلے سے پہلے ہی اتنا ہنگامہ مچا دیا ہے کہ نا اہلی کی صورت میں ان کے پاس جواز موجود ہے کہ دیکھا ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے۔ 
تحریک انصاف کی اقتدار سے رخصتی بڑی دلدوز اور درد ناک ہے کیونکہ یہ مرحلہ اور یہ مقام کارزار سیاست میں ان سے پہلی بار آیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ اپنا کھویا ہوا تخت بازیاب کر لیں لیکن ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں اقتدار سے الگ ہو کر کبھی کوئی پارٹی اگلا الیکشن نہیں جیتی۔ In cumbency factor ہمیشہ برسراقتدار رہنے والوں کے خلاف جاتا ہے۔ کیونکہ ہر حکومت قرضوں اور عوامی مشکلات دونوں میں اضافہ کر کے رخصت ہوتی ہے لہٰذا تحریک انصاف کے لیے فی الحال صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ 
شہباز شریف کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ایک امریکی تھنک ٹینک Brookings جس کے سربراہ Bruce Ridel ہیں وہ امریکی حکومت کو سختی سے باور کرانے کی تگ و دو کر رہے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں اور افغانستان کے معاملے میں جو کچھ ہوا ہے اس کو پیچھے چھوڑ کر خطے میں چائنا اور انڈیا کے حوالے سے جو معاملات چل رہے ہیں خصوصاً روس یوکرائن تنازعات میں پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ صدر بائیڈن کی طرف سے شہباز شریف کو مبارکباد کا فون آنے والا ہے کیونکہ امریکی دفتر خارجہ میں اس پر کافی ہوم ورک ہو چکا ہے ۔ اس ہوم ورک کی ایک وجہ وہ سازشی خط ہے جس نے پاکستان میں اتنی ہلچل مچا رکھی ہے کہ سیاست معیشت اور گورننس سب کچھ مذہب اور نیشنلزم کے نیچے چھپ چکا ہے۔ حالانکہ غلامی سے نجات کے لیے معیشت بہتر کرنا ABCکا درجہ رکھتا ہے۔ ہم امریکی غلامی کی شد و مد سے مخالفت کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف جس سے پاکستان کی معیشت کا پہیہ چل تا ہے اس فنڈ میں سب سے زیادہ حصہ امریکہ کا ہے اور اگر امریکہ ایک دوسطری خط IMF کو لکھ دے کہ پاکستان کو قرضہ نہیں دینا تو اس پر ایک منٹ سے پہلے عمل درآمد ہو گا اور ہماری ساری بغاوت دھری کی دھری رہ جائے گی۔

مصنف کے بارے میں