آپ کوسیاست پسند ہے یا منافقت؟

 آپ کوسیاست پسند ہے یا منافقت؟

 قارئین کرام، جیسے کہا جاتا ہے، اخبارات میں بھی خبریں چھپتی ہیں کہ انتہائی افسوس کامقام ہے، فلاں شخص قضائے الٰہی سے واصل بحق ہوگیا ہے یعنی انسان فوت ہوگیا ہے، اسی طرح سے ہمارے تمام صاحبان علم اور واقفان حال بھی اپنے تمام تردکھ کے ساتھ اعلان کررہے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز کی سیاست بھی دم توڑ چکی ہے، اور سیاستدانوں کے بیانات لب ولہجہ، آستین چڑھا کر اور تمام تر جسمانی طاقت اکٹھی کرکے اور گلاپھاڑ پھاڑ کر ان پڑھ عوام کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لیے اب آتش بازی، لے اور سروں، کو ہم آہنگ کرکے ، جذباتی خواتین اور جوانوں کو نیم مدہوش کردیا جاتا ہے، یہی تو وجہ ہے، کہ پھر من چلے، اور دل جلے نوجوانوں حدودوقیود کی پروا نہ کرتے ہوتے، خواتین کے انکلوژرکو پھلانگ کر معصوم خواتین سے دست درازی شروع کردیتے ہیں۔ 
قارئین آپ نے بھی ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ ان سیاستدانوں کے پاس مجال ہے، کہ عوام کو مزید بے وقوف بنانے کے لیے ایک بھی نیا لفظ  بتا سکیں، میں نے لاہور میں منعقد ہونے والا جلسہ دیکھا تو پتہ چلا کہ الطاف حسین کے جلسے کی طرح سوائے ایک چینل کے تمام چینل پہ یہ ہنگامہ خیز ’’جیالوں کا بین، متوالوں کا بھی نہیں، بلکہ ’’نرالوں‘‘ کا اکٹھ دکھایا جارہا تھا۔ 
موجودہ بدلے ہوئے پاکستان میں سیاست، منافقت میں بدل چکی ہے ۔
بانی پاکستان جناب حضرت قائداعظم ؒ نے بھی سیاست کی تھی اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، یہی وجہ ہے کہ سچ اورکلمہ حق بولنے کے اجر کے طورپر، کروڑوں یہود وہنود کے قبضے سے پاکستان کو ایسے’’بازیاب‘‘ کرایا تھا، کہ دنیا منہ دیکھتی رہ گئی، اور گاندھی جیسے، قول وفعل کی متضاد شخصیت بھی ’’منمنانے‘‘ پہ مجبور ہوگئی تھی۔ 
میں حیران ہوں ، بلکہ پریشان ہوں کہ چند ارکان پارلیمنٹ کی مختصر اور بقول ہرحکمران نوابزادہ نصراللہ خان، تانگے کی ایک پارٹی، جس کا مطلب ہے کہ صرف اتنے لوگ جو ایک تانگے پہ بیٹھ سکیں، ملک کی حکمرانی کے لیے حکمرانوں کو بھی قدم بوسی، اور ان سے ملتے وقت حالت رکوع میں لے جانے پہ مجبور کردیتی ہے، ہمارے وطن عزیز میں مختلف اوقات میں مختصرسی سیاسی جماعتیں، حکمرانوں کو (بلیک میل) کرکے اپنی مرضی کے محکمے بھی لے جاتی ہیں، جیسے متحدہ موومنٹ والے، نجانے ان کے بھی کتنے دھڑے بن گئے ہیں، جو بڑے دھڑلے سے ’’شپنگ‘‘ کا محکمہ لے جاتے ہیں ، ایسے ہی بلوچستان کی بھی کچھ پارٹیاں ہیں جو قومیت کی بنیاد پر اور پھر بلوچستان کی پس ماندگی کو بنیاد بناکر نہ صرف وزارتیں بلکہ اپنے صوبے کی ترقی کے نام پر بے تحاشہ رقوم لے کر اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں، اس حوالے سے ایک بڑی شخصیت کا نام، جن کی وضع قطع دیکھ کر پنجاب کے سابق وزیر خارجہ سردار آصف علی صاحب نے نہ صرف ویسی داڑھی رکھ لی تھی، بلکہ میرے استفسار پر بتایا تھا کہ میں بلوچستان کے سردار اکبر بگٹی مرحوم سے بہت زیادہ متاثر ہوں، خود بلوچ ہونے کے ناطے میری سردارآصف احمد علی سے درخواست ہے کہ وہ نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے، سردار زین بگٹی کی طرح سر کے بال بڑھا کر کاندھوں تک تو ضرور لے جائیں، مختصر یہ کہ آج کل خصوصاً کچھ سالوں سے وزیر اطلاعات کا سینئر صحافی کو تھپڑ ماردینا، اور پھر واقعی وہ صحافی  سربازار، نوے کے زاویے پہ یوٹرن لیتا آج بھی نظر آتا ہے تو پھر وہ صحافی اپنا سا منہ لیتے رہ جاتے ہیں جنہوں نے ان کے حق میں صفحات کالے کرڈالے تھے، اس حوالے سے ہمارے ایک اور کالم نگار دوست جناب امجد اسلام امجدکی رائے  لے لیتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ 
ہم جیسا کوئی دیکھا ہے!
تم نے سادہ اور کوئی !
دل میں سارا کھوٹ ہی کھوٹ
تن پہ لبادہ اور کوئی !
جب میں ان کلمات چیدہ و رنجیدہ پہ پہنچا تو ٹی وی پہ نظر دوڑائی تو یہ خبر مل رہی تھی کہ چودھری شجاعت حسین، کے اپنے والد مرحوم جناب ظہور الٰہی شہید کے طریق کار کے بالکل برخلاف اپنے بیٹے کو اس حکومت میں وفاقی وزیر لگواہی لیا ہے، یہاں ایک معصومانہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جیسے میاں نواز شریف، اور شہباز شریف، دونوں بھائیوں بلکہ پورے خاندان مریم نواز، حمزہ شہباز سمیت کسی میں بھی ذرہ برابر بلکہ سرمو بھی فرق نہیں اور وہ میاں نواز شریف صاحب کی ہربات پر حکم بجالیتے ہیں۔ 
قارئین، اس دفعہ بھی چوتھی بار، صوبہ سندھ یعنی کراچی سے چنائے پھر آسکر ایوارڈ لے جائیں گی اور وہ ہمارے سپیکر پنجاب اسمبلی جناب چودھری پرویز الٰہی کی پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپنے ذاتی گارڈوں کو دائیں ہاتھ کے اشارے سے اسمبلی میں بلانا، اور پھر اجلاس کی کارروائی کو شور شرابے، دھینگا مستی، اور مارکٹائی میں بدلنے اور اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے مارنے والوں کو شاباش دینا، اور پھر اچانک پولیس کا آنا، اور پھر فواد چودھری پرویز الٰہی کا لہولہان ہوکر بازوٹوٹنے کی اداکاری کرکے اسی ٹوٹے ہاتھ سے ہاتھ اونچے کرکے اللہ تعالیٰ سے دشمنوں کو بھی ہدایت دینے کے بجائے ایسے بددعائیں دینا، جیسے گائوں میں ’’سوکنیں‘‘ ہاتھ اٹھا ٹھا ایک دوسرے کو بددعائیں دیتی ہیں، لیکن دوسرے ہی لمحے منہ پہ آکسیجن ماسک لگاکر اور شدید زخمی ہونے کی ایکٹنگ کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے، چنائے کو پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کے لیے ایک اور موقعہ دینا چاہتے تھے کہ پاکستان اخلاقی، اور معاشرتی سطح پہ اتنا گرگیا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، چودھری مونس الٰہی نے عمران خان کے جلسے میں ن لیگ والوں خصوصاً حمزہ شہباز کو  برے برے القاب چھپکلی کی شکل والا، اور کہا کہ میک اپ کا شوقین، وزیراعلیٰ ہوسکتا ہے ؟ اس موقعے پہ شیخ رشید نے توحدکردی، اور جذبات کی رومیں بہہ کر جہاں خالی لال حویلی میں وہ اکثر بہک جاتے ہیں، بلاول زرداری ، کو بلورانی کہہ دیا، اور آصف زرداری کو قاتل، چور، اور تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا اور کہا کہ یہی آصف زرداری اپنی بیوی، بے نظیر کا قاتل ہے، یہی اپنے سالے مرتضیٰ کا قاتل ہے، اسی نے پولیس آفیسر کو قتل کروایا تھا، زرداری نے ہی اپنے دوسرے سالے شاہ نواز کو قتل کرادیا۔ 
قارئین حیرت ہے کہ شیخ رشید نے جب وہ وزیرداخلہ تھے، زرداری صاحب کے خلاف پرچہ درج کیوں نہیں کروایا تھا ؟ اس کو سیاست نہیں منافقت کہتے  ہیں اسی لیے پاکستان کے سابق وزیراعظم نے اپنے خاندان کو بھی تقسیم کرکے رکھ دیا اپنے بچوں کو وزیر’’بھرتی‘‘ کرواکر حزب اقتدار، اور حزب اختلاف دونوں کے مزے لے رہے ہیں، چاہیں ٹانگیں قبر میں ہوں، اٹھنے اورچلنے سے معذور ہوں دنیا کے مزے لینے میں کیا حرج ہے، ہرکوئی ایدھی تو نہیں ہوسکتا۔ صدر آصف زرداری ہمت کریں گے کہ شیخ رشید پہ توہین یا ہرجانے کا مقدمہ درج کروادیں، جیسے آئی جی چیمہ صاحب نے دھمکی دے کر اپنی جان چھڑوائی۔ 

مصنف کے بارے میں