بابر پہ ہی فلم کیوں؟ انگلش میڈیم غلامی ہے؟

بابر پہ ہی فلم کیوں؟ انگلش میڈیم غلامی ہے؟

گزشتہ چند دنوں موجودہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا بہت چرچہ رہا جو تین سالہ حکمرانی ضرور ہے کارکردگی سوالیہ نہیں واضح صورت حال ہے کہ 40 سال میں جو کچھ بہتر ہوا برباد کر دیا گیا اور یہ بربادی ہر شعبہ میں آئی۔ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں اگر وزیراعظم کہے کہ ارطغرل دیکھیں اور ظہیر الدین محمد بابر پر فلم بنانے کا عندیہ دیاجائے۔ یوں تو موروثی سیاست کے خلاف ہیں اور جس نے بادشاہت اور ملوکیت صدیوں قائم کر رکھی ہے۔ بابر پر فلم بنے گی اگر ٹروتھ کمیشن قائم نہیں کر سکتے تو سچائی پر مبنی ملکی تار یخ پر فلم ہی بنا دیں۔ چلیں 12 ارب روپے میں ڈیم تو بنا نہیں چند فلمیں ہی بنا لیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ فلم بابر پر ہی کیوں؟ بابر بھی عام طاقتور حملہ آوروں کی طرح تھا فرق یہ تھا کہ اس کی نسل کے 7/6 بادشاہ آئے اور صدیاں بادشاہت کی نذر ہو گئیں۔ گرم حمام بنائے، عشق کیے، ان کی یادگاریں بنائیں مگر ان کے دور میں دفتر اور حکومتی زبان فارسی تھی جو آج تک خسرہ نمبر، کھتونی نمبر، مشتری ہشیار باز، ڈھال باش اور بھی ایسے ہی الفاظ ہیں جو ہمارے نظام میں رائج ہیں۔ انگریز آئے انہوں نے 90 سال میں ہندوستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ قانون دیا نظام دیا۔ مواصلات کا نظام کبھی گوگل پر انگریز کے آنے سے پہلے کی پرانی تصویریں دیکھ لیں اندازہ ہو جائے گا پھر موجودہ حکومت کبھی سابقہ حکمرانوں کو بربادی کا شاخسانہ قرار دیتی اور اب نئی در فنطنی چھوڑی ہے کہ ’’انگلش میڈیم سسٹم ذہنی غلامی ہے، ہماری تنزلی کی بڑی وجہ انگریز کا نظام تعلیم ہے، ہمیں اسلام اور اپنے کلچر سے دور رکھا ‘‘سبحان اللہ! کیا انگلش جھوٹ، منافقت ، دھوکہ دہی، جعلسازی، انسانی سمگلنگ، رشوت خوری، نا انصافی ، ملاوٹ، بداخلاقی، الزام تراشیاں سکھاتی ہے؟ کائنات میں نیکی اور بدی دو حقیقتیں ہیں۔ جھوٹ اور سچ دو محاذ ہیں۔ پورے یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور ایسے ممالک میں جھوٹ، ملاوٹ، غیبت، منافقت، ناجائز قبضہ نظر نہیں آئے گا اور ویسے بھی موازنہ کر لیں کے انگریز کے دور کے کتنے واقعات  ہیں عدالت نے زیر اثر فیصلہ کیا ہو، ملاوٹ کی ہو، میں انگلش کے حق میں نہیں ہوں لیکن وزیراعظم قوم کو اپنے بے بنیاد نظریات جو کبھی سنگاپور کا نظام، کبھی ملائیشیا کا نظام ، کبھی چائنہ، کبھی ترکی اور کبھی ریاست مدینہ کی سیر کراتے رہتے ہیں ۔ دنیا میں کوئی کنفیوز قوم شخص یا معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ کبھی تو مجھے لگتا ہے کنفیوژن پیدا کرنا موجودہ حکمرانوں کی پالیسی ہے اور اس حد تک پھیلا دی گئی ہے کہ ہماری معاشرت واحد معاشرت جس میں سچ جھوٹ کے ہاتھوں شکست خوردہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سچ بے باک اور بے دید ہوتا ہے۔ آنکھیں پھاڑ کر سینہ تان کر سامنے کھڑا ہوتا ہے لیکن موجودہ دور میں جھوٹ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ یہ جھوٹ پہچان بن گیا۔ہم نے مارشل لاء کے تسلسل دیکھے، بالواسطہ اور بلا واسطہ جمہوریت دیکھی ۔ یوں لگتا ہے کہ 1947ء کے بعد حصول آزادی کا سفر مکمل نہیں ہوا مزید تلخ ہو گیا۔ عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے جان چھوٹ گئی مگر موجودہ حکمرانوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو وطن عزیز میں دوبارہ مقبولیت کے مقام پر لاکھڑا کیا۔ 
وزیراعظم صاحب! جو اس دنیا میں ایجا دکرتا ہے کنٹری بیوٹ کرتا ہے وہ اپنی ایجاد کا نام خود رکھتا ہے۔ کرولا، کرونا، مرسیڈیز کا نام اسلامی ناموں پر تو نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ H2O آکسیجن کا فارمولا ہے اس کو دنیا کی کسی زبان میں ترجمہ کر دیں؟ میں نے دو دہائیوں سے زیادہ امپورٹ کی دستاویزات دیکھیں جرمنی، جاپان، چائنہ سمیت کسی ملک کی انوائس انگریزی کے علاوہ نہیں دیکھی۔ آپ ڈسپرین، Lexotanil, panadol ،انسولین اور دنیا میں ایلو پیتھی ادویات کے نام اسلامی اور اپنے اردو ادب والے رکھ کر دکھائیں۔ اللہ کی کائنات میں کنٹری بیوٹ کریں تو آپ کی زبان، کلچر کو کوئی نہیں روکے گا۔ بیورو کریسی، وزراء مشیروں تمام محکموں اور  اداروں کے اعلیٰ ترین حکام کی اولادوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھنے کا پابند کریں معیار یکساں ہو جائے گا۔ اب پتہ چلا ہے کہ ترقی کا شارٹ کٹ نہیں ہے تو پہلے 100 دن میں ۔ زمین آسمان ایک کرنے کے دعوے کیا ہوئے وزیراعظم 1000 شارٹ کٹ سے حکومت چل سکتی ہے مگر تجربے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ رہی مذہب کی بات لاکھوں عیسائی یورپ میں ہر سال مسلمان ہو رہے ہیں۔ کیا انگریزی نے روکا؟ دنیا میں اسلام کا غلبہ ضرور ہو گا ۔ ایسے نہیں کہ آپ کندھے پہ سٹنگر میزائل رکھ کر دنیا فتح کر لیں گے۔ اسلام ایک پیغام ہے جس کے دل میں اتر گیا وہ ہدایت پا جائے گا اور ان شاء اللہ یہ پیغام بالآخر دنیا کی ترقی یافتہ قومیں سمجھ جائیں گی۔ ورنہ ایران کی ملائیت سعودیہ کی ملوکیت ہمارے ہاں ہائبرڈ سسٹم سے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اسلام پھیلے گا۔ انگریزی نہیں ہمارا کردار اسلام کے سامنے کھڑا رکاوٹ ہے۔ سی ایس ایس کا امتحان اردو میں،عدالتی کارروائی اردو ، سرکاری نوکری کے لیے امتحان اردو میں کر دیں رجحان بدل جائیں گے۔ مگر دنیا کے ہم رکاب رہتاہے۔ تو کم از کم ہمیں دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں سے واقف رہنا ہو گا خصوصاً جن سے کاروبار کرنا ہے۔ 
74 سال میں پہلا وزیراعظم ہے جو ملک میں مہنگائی کر کے غریب عوام کی زندگی مشکل میں ڈال کر کہتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے اتنی بددعائیں آج تک کسی کو نہیں ملیں جتنی اس حکومت کو ملی ہیں۔ 70 روپے والا پٹرول 122 ، 160 روپے والا گھی 340 روپے، 118 روپے والاڈالر166 روپے 63 ہزار 500 والی سی ڈی موٹر سائیکل 86900 روپے، 54 روپے والی چینی 110 روپے جو میڈیسن 150 کی ملتی تھی وہ 520 روپے قرضے 30ہزار ارب تھا اب 45 ہزار سے زائد ہو گیااور نہ جانے کیا کیا انہونی ہو گئی۔ 
حضور وزیراعظم صاحب! اگر انگلش ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو بسم اللہ کریں اور سی ایس ایس کا امتحان اردو میں کر دیں۔ لوگ خود بخود انگلش سے آزادی حاصل کر لیں گے۔ گلی محلے کھلے میں سکول جن کے باہر پارکنگ نہ ہو بند کروائیں۔ 
بیورو کریسی، عدلیہ کے افسران کا لباس تو انگریزی ہے جبکہ ان کو چائے پلانے والے کا لباس شلوار قمیض ہے جو گھنٹی سن کر ٹوپی پہن کر حاضر ہوتا ہے اس کو ہی بدل دیں۔ بابر پر فلم ضرور بنانا ہے ۔ قائداعظم، جسٹس منیر ، ایوب خان سے غلام اسحق خان سے اب تو سیاسی ، عدالتی، عسکری ، بیورو کریسی کی قیادتوں پر فلم بنا لیں۔ بہت سے مناظر تو گوگل سے ہی اٹھا لیں۔ ہمارے تو ایک ایک ادارے پر فلم بن سکتی ہے۔ کئی علماء دین مل جائیں گے ان پر فلم بنائیں کچھ تو فلم میں کردار ادا کرنے پر بھی راضی ہو جائیں گے۔ یہ کالم حکمرانوں کی بے ترتیب بلا جواز اور تباہ کن کارکردگی ایک سے دوسرے سے میل نہ کھانے والے بیانات کی وجہ سے کنفیوژ کالم ہے۔ 
حکمران ہیں حکومت نہیں، نعمتیں ہیں پہنچ سے دور کیا نہ سمجھ آنے والا قحط ہے فکری ، شعوری اور حقیقی قحط 
خدارا! عوام پر ترس کھائیں۔ حالت یہ ہے کہ بقول فائزہ بٹ 
کوئل کی کوک تھی دل ناتواں کی ہوک
ہر سمت تم ہی تم تھے، مگر دوست تم نہ تھے