خلا سے آنے والے انتہائی طاقتور ریڈیو سگنلز, سائنسدان انتہائی پریشان‎

خلا سے آنے والے انتہائی طاقتور ریڈیو سگنلز, سائنسدان انتہائی پریشان‎

مونٹریال: ہماری ملکی وے کہکشاں کے باہر سے طاقتور ریڈیو سگنل موصول ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور ماہرین حیران ہیں کہ آخر یہ سگنل کس وجہ سے اور کس چیز سے آ رہے ہیں۔

حال ہی میں ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ایسے مزید 6 ریڈیو سگنل موصول کیے ہیں۔ قبل ازیں مارچ 2016 میں ایسے ہی 10 انتہائی طاقتور سگنل زمینی ریڈیو دوربینوں نے موصول کیے تھے اور تب سے ماہرین پریشان ہیں کہ آخر ان کی ممکنہ وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ نئے سگنل بھی اسی سمت سے موصول ہوئے ہیں جہاں سے مارچ میں 10 سگنل وصول کیے گئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ریڈیو لہروں کے یہ سگنل اگرچہ صرف چند ملی سیکنڈ تک کے لیے ہی برقرار رہتے ہیں لیکن ایسے ایک سگنل یا ’’جھماکے‘‘ میں مجموعی طور پر اتنی زیادہ توانائی ہوتی ہے جتنی ہمارا سورج پورے ایک دن میں روشنی کی صورت خارج کرتا ہے۔ اسی مختصر مدت کی بنا پر انہیں ’’فاسٹ ریڈیو برسٹس‘‘ (ایف آر بی) کا نام دیا گیا ہے۔

ابھی تک ماہرینِ فلکیات ان کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں لیکن فی الحال ایف آر بی کی وضاحت میں ان کے پاس دو مفروضات ہیں: ایک یہ کہ شاید ہماری کہکشاں کے قریب ہی دو نیوٹرون ستارے آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں ضم ہوکر بلیک ہول بنا رہے ہیں جب کہ دوسرے مفروضے کے مطابق یہ ہماری کہکشاں سے باہر واقع کسی ایسے ستارے سے آنے والے ریڈیو سگنل ہیں جو نسبتاً حال ہی میں نیوٹرون ستارہ بنا ہے اور اس کے قطبین بڑی تیزی سے لڑکھڑاتے ہوئے اپنے استوا کے گرد گھوم رہے ہیں۔

اگرچہ اس متعلق دوسرا مفروضہ بظاہر زیادہ جاندار محسوس ہوتا ہے لیکن ابھی یہ دونوں صرف مفروضات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ان طاقتور ریڈیو سگنلوں کی کوئی بہتر اور زیادہ معقول وضاحت سامنے آجائے۔ 2007 میں ماہرینِ فلکیات نے پہلی بار ایف آر بی دریافت کیے تھے لیکن وہ ہماری کہکشاں کے کسی اندرونی مقام کی طرف سے آرہے تھے۔ اس سال مشاہدے میں آنے والے تمام فاسٹ ریڈیو برسٹس (ایف آر بی) نہ صرف ہماری ملکی وے کہکشاں کے باہر سے آرہے ہیں بلکہ وہ ایک ہی سمت سے آتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔

اس لیے ماہرین کو امید ہے کہ مستقبل میں اس مقام پر مسلسل نظر رکھ کر وہ شاید ایسے مزید سگنل ریکارڈ کر سکیں گے اور متوقع طور پر ان کی کوئی معقول سائنسی وجہ بھی دریافت کر سکیں گے۔

مصنف کے بارے میں