”صحت سب کے لئے“ کب شرمندہ تعبیر ہو گا

”صحت سب کے لئے“ کب شرمندہ تعبیر ہو گا

عالمی ادارہ صحت کا ایک بڑا مشن یہ ہے کہ تمام لوگوں کو صحت کی یکساں سہولیات فراہم کی جائیں۔ دیکھنے میں تو یہ ایک عام سا مشن لگتا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک بہت ہی جامع پروگرام کارفرما ہے جس کا مقصد ہر امیر، غریب، چھوٹے بڑے اور ہر طبقہ فکر کے انسانوں کے لئے صحت کی یکساں سہولیات فراہم کرنا ہے، یعنی ایک ہی معیار کے ہسپتال، ادویات تک رسائی، ایک ہی معیار کے سپیشلسٹ اور ایک ہی معیار کے تشخیصی ٹیسٹ تمام عوام کو فراہم کئے جائیں اور تمام لوگوں کو ایک جیسی سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔
”صحت ہر شخص کے لئے“ کا مقصد یہ بھی ہے کہ انسان کو جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر صحت مند رکھا جائے۔ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے جس کے لئے سائیکالوجسٹ، نیورالوجسٹ، سائیکاٹرسٹ کی ایک ٹیم ان لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ 
صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ امیر، غریب اور متوسط طبقے کے تمام افراد کا یہ بنیادی حق ہے کہ انہیں صحت کی سہولیات حکومتی سطح پر فراہم کی جائیں۔ پاکستان میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بہت ہی جامع سسٹم موجود ہے جس میں دو قسم کے لیولز ہیں۔ ایک پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر سسٹم اور دوسرا سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر۔ عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کا آغاز لیڈی ہیلتھ ورکرز سے ہو جاتا ہے جو گھر گھر جا کر عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ ان کے پاس کچھ بنیادی ادویات ہوتی ہیں اور حکومت کی طرف سے سادہ سے امراض کا علاج بھی ان کے ذمہ لگا ہوتا ہے۔ ہر لیڈی ہیلتھ ورکر کے ذمہ سو ڈیڑھ سو فیملیز ہیں جن کا ماہانہ شیڈول ترتیب دیا جاتا ہے جس کے مطابق انہیں گھروں میں جا کر صحت کے حوالے سے کام کرنا ہوتا ہے۔ عوام کو بنیادی آئرن کی گولیاں، ملٹی وٹامنز، اسہال کے مرض میں استعمال کیا جانے والا او آر ایس، پیٹ میں کیڑے مارنے کی ادویات، خواتین کے لئے آئرن کے سپلیمنٹ وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔
علاقے کے لوگوں کو ڈسپنسری کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جن میں زچہ وبچہ سنٹر، سکول ہیلتھ سروس، بنیادی مراکز صحت کی سہولیات موجود ہیں۔ ہر یونین کونسل کے لیول پر ایک بنیادی مرکز صحت قائم کیا گیا ہے جو کہ یونین کونسل کی تمام آبادی کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اس میں باقاعدہ ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ عملہ بھی موجود ہے جو کہ علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ادویات کی فراہمی اور ویکسینیشن کی فراہمی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ 
یونین کونسل سے گلے لیول پر دیہی مرکز صحت قائم کئے گئے ہیں جن میں ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ سپیشلسٹ ڈاکٹرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دیگر عملہ بھی موجود ہے۔ کئی سینٹرز میں علاج کے ساتھ ساتھ ادویات اور تشخیصی عمل بھی مکمل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر تحصیل لیول پر ایک تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال اور ہر ڈسٹرکٹ کے لیول پر ایک ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال عوام کو مہیا کیا گیا ہے جس میں مختلف شعبہ جات جس میں میڈیسن، سرجری، گائنی، زچہ وبچہ، آرتھوپیڈک و دیگر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ کئی ڈسٹرکٹ لیول پر ٹیچنگ ہسپتال بھی قائم کئے گئے ہیں جس میں اعلیٰ ترین تعلیم اور تربیت کے حامل ڈاکٹرز موجود ہیں جو عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح دیکھا جائے تو پاکستان کا صحت کا سسٹم دنیا کے بہترین سسٹمز میں سے ایک ہے۔ ضرورت امر کی ہے کہ اس سسٹم کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور عوام کو صحت اور تشخیص کی سہولیات اس کی دہلیز پر فراہم جائیں۔ اس کے لئے سب سے اہم کام یہ ہے کہ ریفرل سسٹم کو بحال کیا جائے۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی یونین کونسل کا مریض سب سے پہلے اپنے متعلقہ بنیادی مرکز صحت میں جائے اور وہاں سے اگر اسے ریفر کیا جائے تب بھی وہ متعلقہ دیہی مرکز صحت میں جائے۔ اگر مریض کو اس سے بہتر صحت کی سہولیات کی ضرورت ہو تو یہاں سے ریفر ہو کر وہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال یا متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال جا سکے۔ ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ مریض پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی سہولیات کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست تدریسی ہسپتالوں کا رخ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے تدریسی ہسپتالوں پر مریضوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے اور ایسے ایسے مریض جنہیں پرائمری یا سیکنڈری ہیلتھ کیئر سروسز میں جانا چاہئے، وہ ٹیچنگ ہسپتال میں جا رہے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریفرل سسٹم کو بحال کیا جائے۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہی ڈاکٹر ٹرانسفر ہو کر ایک سے دوسرے ہسپتال میں چلے جاتے ہیں اس لئے ان کے علاج کا معیار مختلف صحت کی سہولیات میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے اس لئے غیرضروری طور پر بڑے بڑے ہسپتالوں کی طرف بھاگنے سے گریز کیا جائے۔
ویکسینیشن کا ایک بھرپور پروگرام ہے جہاں حفاظتی ٹیکے لگانے کا ایک مکمل انتظام ہے۔ حکومتی سطح پر ویکسی نیٹرز اور ویکسینیشن سینٹرز موجود ہیں۔ ویکسی نیٹرز کا کام یہ ہے کہ گھر گھر جا کے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو حفاظتی ٹیکے اور قطرے پلاتے ہیں۔ ان کے پاس پورے علاقے کا ریکارڈ بھی ہوتا ہے اور جو بھی نوزائیدہ بچے اس علاقے میں پیدا ہوں، یہ فوری طور پر اس تک رسائی حاصل کر کے ویکسی نیشن کرتے ہیں تاکہ حفاظتی قطروں اور ٹیکوں کا کورس کرایا جا سکے۔
صحت سب کے لئے فراہم کرنے کے لئے چند بنیادی نکات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے جیسے کہ
1- تمام افراد، فیملیز اور آبادیوں کو صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں۔
2- صحت کی سہولیات کی پلاننگ اور فراہمی کے لئے معاشرے کو شامل کیا جائے۔
3- صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں شامل کیا جائے۔
صحت کی سہولیات کی بہتری کے لئے سب سے پہلے سیاسی سوجھ بوجھ میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ ہمارے سیاسی رہنما عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ جب سیاسی رہنماؤں میں ہم آہنگی پائی جائے گی تو پھر ایسی پالیسیز بنائی جائیں گی جو صحت کی سہولیات میں اضافے کا باعث بنیں۔ اس لئے کہ ایسا کرنے کے لئے خاطرخواہ فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات میں اضافہ اور ان کے معیار میں بہتری بھی ضروری ہے۔ ان مراکز صحت میں موجود مشینیں، انفراسٹرکچر اور کام کرنے والے لوگوں میں بہتری لائی جانی ضروری ہے۔ جب سیاسی لیڈرشپ اس کام کے لئے تیار ہو گی تو ہی ان کی سہولیات میں اضافہ ممکن ہے۔ کبھی کبھی ہمیں متبادل ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی صحت کی سہولیات میں اضافہ کرنے پر غور کرنا ہو گا۔ خاص طور پر کمیونٹی کی شمولیت بے حد اہم ہے جو نہ صرف صحت کی سہولیات کو جانچنے، اس کے اندر پیدا ہونے والے مسائل کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے بلکہ صحت کی سہولیات لوگوں کے گھروں تک پہنچانے کے لئے بے حد اہم ہے۔ ”صحت سب کے لئے“ کا بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ ہر خاص وعام، غریب اور امیر کو صحت کی سہولیات ان کے گھر کے قریب ترین پہنچائی جائیں اور اس طریقے سے یہ سہولیات فراہم کی جائیں کہ اس کی صحت کا معیار بہتر سے بہتر ہو سکے۔ صحت کی سہولیات میں ہیلتھ ایجوکیشن کی فراہمی بھی بے تحاشا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادی کو ایک خاص حد میں رکھنا اور بے گھر لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ ”صحت سب کے لئے“ کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایک جامع حکمت عملی پر عمل کرنا ہو گا جس میں ہر پہلو کو شامل کیا جائے اور ہر طرح کی مدد حاصل کی جائے تاکہ ہم عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔