سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا

سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا

اسلام آباد: جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف سمیت اسحاق ڈار اور کیپٹن(ر) صفدر کو بھی نااہل قرار دیدیا۔پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے پڑھ کر سنایا جس کے تحت پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔

فیصلے کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی شق 62 اور 63 کے مطابق صادق اور امین نہ رہنے پر نااہل قرار دیا گیا ہے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف فوری طور پر وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیں۔ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو فوری طور پر وزیراعظم کی نااہلی کا ںوٹیفیکشن جاری کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ 

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نواز شریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیا ہے جب کہ شریف خاندان کے تمام کیسز نیب میں بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ نواز شریف، حسن، حسین، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جائے اور نیب 6 ہفتوں میں ریفرنس دائر کرے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ احتساب عدالت ان مقدمات پر 6 ماہ میں فیصلہ کرے گی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیراعظم اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف بھی نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں خاص طور پر اس بات کو واضح کیا ہے کہ صدر مملکت ممنون حسین جمہوری عمل کی ہموار منتقلی کو یقینی بنائیں تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھتا رہے۔

پانچ رکنی بینچ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران کو کسی بھی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حاضر سروس کو نامزد کریں جو نیب میں زیرسماعت کیسز کی نگرانی کریں اور عدالتی فیصلے کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کروائیں۔ حاضر سروس جج یہ بھی دیکھیں کہ جے آئی ٹی ممبران کی ملازمت کو تحفظ ملے۔ جے آئی ٹی ممبران کے خلاف کوئی بھی تادیبی کارروائی عدالت کو بغیر بتائے نہ کی جائے۔

اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف کے مطابق  سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیا ہے اور اس فیصلے کے خلاف  اپیل  کا قانون بھی نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا نواز شریف کا اقامہ ان کی نااہلی کی وجہ بنا ہے۔

یاد رہے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی عملدرآمد بینچ کے روبرو جے آئی ٹی نے 10 جولائی کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی اور عدالت نے 5 سماعتوں کے دوران رپورٹ پر فریقین کے اعتراضات سُنے اور 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔ اب حتمی فیصلے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔

واضح رہے پاناما کا معاملہ گزشتہ سال اپریل میں سامنے آیا تھا جس نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن انھوں نے اس کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحقیقاتی کمیشن کے ضوابطِ کار کی تشکیل کے لیے بھی طویل نشستیں ہوئیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔ اس موقع پر تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور 2 نومبر کو اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کال دی اس دوران عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد کی جانب سے سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسین نواز ، حسن نواز، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواستیں دائر کر دی گئیں جنہیں ابتدا میں رجسٹرار آفس نے اعترضات لگا کر واپس کر دیا تھا تاہم بعد ازاں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اعتراضات ختم کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل فل بنچ کے روبرو سماعت کیلے مقرر کر دیا تھا۔

20 اکتوبر 2016 کو پاناما کیس کی پہلی سماعت کی گئی اور تمام فریقین کو نوٹس جاری کیے گئے۔ 28 اکتوبر کو سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے کر مزید سماعت یکم نومبر کو مقرر کر دی گئی تھی ۔ لارجر بینچ نے 9 سماعتیں کیں لیکن 9 دسمبر 2016 کو سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے باعث کیس کی سماعت نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے یکم جنوری 2017 کو حلف لینے تک ملتوی کر دی گئی تھی۔ اسی سماعت پر تحریک انصاف عدالتی کمیشن بنانے کے مطالبے سے منحرف ہو گئی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے حلف اٹھاتے ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا جس نے 4 جنوری 2017 کو کیس کی پہلی سماعت کی اور مسلسل 26 سماعتیں کرنے کے بعد 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ۔ کیس کا عبوری فیصلہ 57 روز بعد 20 اپریل کو جاری کیا گیا جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو نااہل کرنے کا فیصلہ سنایا جبکہ 3 ججز نے مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔

پانچ مئی کو تشکیل پانے والی جے آئی ٹی نے 8 مئی سے کام کا آغاز کرنے کے بعد 63 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کی۔ اس دوران 3 عبوری رپورٹس بھی پیش کی گئیں جبکہ حسین نواز کی طرف سے جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ اور تصویر لیک ہونے کیخلاف معاملہ اور نہال ہاشمی کی متنازع تقریر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعتیں بھی عملدرآمد بینچ کے سامنے ہوئیں تاہم 50 سماعتوں کے بعد یہ معاملہ آج اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

 نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں