فیٹف اور لوگوں کی ذاتی معلومات کی چوری

Khalid Minhas, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

پاکستان میں امریکہ کے لیے فوجی اڈوں کے مطالبے اور فیٹف کے فیصلے کو ساتھ ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ یہ بات تو کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ دنیا میں مانیٹرنگ کے جو بھی ادارے بنائے جاتے ہیں ان کا مقصد بین الاقوامی برادری کے تحفظ سے زیادہ کچھ قوتوں کے مفادات کو تحفظ دینا ہوتا ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیٹف کا ادارہ جو پیرس میں قائم ہے اس کا مقصد بھی امریکی مفادات کا تحفظ ہے۔دھونس اور جبر کے ساتھ ملکوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے ان اداروں کا سیاسی استعمال ہمیشہ سے ہوتا رہاہے۔ فیٹف کے حالیہ اجلاس میں ایک بار پھر سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اس کے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا رہے گا۔خود فیٹف نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان سے جن 27نکات پر عمل درآمد کے لیے کہا گیا تھا اس کے 26نکات پر عمل درآمد ہو گیا ہے۔پیسے کی غیر قانونی آمدورفت کو روکنا اور پیسے کا دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا اپنی جگہ ایک جرم ہے اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے تمام تر اقدامات اٹھائے جو اس ضمن میں ضرور ی ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجہ میں پاکستان کا بھی فائدہ ہوا ہے اور بیرون ملک سے ترسیلا ت زر میں اضافہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے کہ حوالہ اورہنڈی کا کاروبار ختم ہو گیا ہے۔ آپ اسے حکومت کی کارکردگی کہیں یا بین الاقوامی دباؤ جس کے نتیجہ میں یہ سب ہوا ہے لیکن اس کا مثبت اثر پاکستان کے خزانے پر پڑا ہے۔
دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی ضرورت رہتی ہے اور پاکستان جیسا غریب ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث تنظیمو ں کو مالی مدد فراہم کر سکے۔ پاکستان کے اندر جن تنظیموں پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے  ان کا محاسبہ ہو بھی رہا ہے اور جہاں پر سقم موجود ہے اس پر عمل درآمد کر کے ہم اپنے گھر کو سیدھا کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جانا ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے واقعات میں جو پیسہ استعمال ہوا ہے اور جن ملکوں کی تنظیمیں اورافراد ان میں ملوث رہے ہیں ان پر فیٹف نے کون سی پابندیاں عائد کی ہیں۔پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے گا تو اس پر تنقید کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ مسئلہ پیسے کی غیر قانونی رقم و حمل روکنے کا ہے تو پھر اس کا دائرہ کار تمام ملکوں تک بڑھانا ضروری ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ پاکستان سے بہت سا پیسہ غیرقانونی طریقوں سے باہر گیا۔ڈالروں کے جہاز بھر بھر کر باہر گئے اور انہیں خلیجی اور یورپی ممالک کے بنکوں میں جمع کرا دیا گیا۔ یہ دہشت گردی تیسری دنیا کے تمام کرپٹ حکمرانوں نے کی ہے مگر اس پر تما م ادارے خاموش ہیں۔ خلیجی ممالک اور یورپی ممالک کے بنکوں میں پیسے کے جو انبار لگائے گئے ہیں ان کے ذرائع کو سامنے لانا بھی ضروری ہے۔ماتھا اس وقت ٹھنکے گا جو یہ بات سامنے آئے کہ بہت سے ممالک کو گرے لسٹ سے نکال دیاگیا حالانکہ ان ممالک نے جو اقدامات اٹھائے تھے وہ پاکستان سے بہت کم تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکلنے دیا جائے اور امریکہ کی کوشش یہی ہے کہ پاکستان پر دباؤ برقرار رکھ کر اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جائیں۔
فیٹف نے کہا ہے کہ اس کے پروگرام پر کلی طور پر عمل کیا جائے۔ یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ بھارت اس کوشش میں ہے کہ فیٹف کو دوسرے ممالک اور تنظیموں کی حمایت سے بھی جوڑا جائے اورپاکستان سے کہا جائے کہ ان ممالک اور تنظیموں کے تحفظات کو بھی دور کیا جائے۔ شنگھائی تعاون کونسل کے ممالک کے سکیورٹی کے مشیروں کا اجلاس دوشنبہ میں ہوا ہے جس میں پاکستان کے مشیر قومی سلامتی معیدیوسف بھی موجود تھے۔ اس اجلاس میں بھارت کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ ایس سی او او ر فیٹف میں اس یادداشت پر دستخط کرائے جائیں اور فیٹف سے کہا جائے کہ پاکستان کو اس وقت تک اس فہرست سے نہ نکالا جائے جب تک پاکستان ایس سی او کی طرف سے فراہم کیے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد نہیں کرتا۔ اس اجلاس میں بھارت کے مشیر سلامتی نے فیٹف سے کہا ہے جب تک پاکستان 
کو دیے گئے تمام اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہوتا اسے گرے لسٹ سے نہ نکالا جائے اور ہم نے یہ دیکھا کہ فیٹف نے ایسا ہی کیا ہے۔ اب آتے ہیں اس اقدام کی طرف جو پاکستان نے اب تک نہیں اٹھایا۔ فیٹف نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ نے جن افراد اور تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے ان کو قانون کے دائرہ کار میں لا کر انہیں سزائیں دلوائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان نکات پر بھی من و عن عملدرآمد کیا جائے جو 2019ء میں ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو تجویز کیا تھا۔
پاکستان کے تفتیشی اور سلامتی کے اداروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان تمام افراد کے خلاف کارروائی کریں جن کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں کا کھوج لگایا جائے انہیں ضبط کیا جائے۔ پاکستان میں اس تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا، بہت سے اثاثے منجمد اور ضبط بھی ہوئے اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی برداری سے کہے کہ جو اثاثے رہ گئے ہیں ان کی نشاندہی کے لیے مدد کی جائے۔ پاکستان کے اندر 
حالات یہ بھی ہیں کہ چند گروہ عام شہریوں کو فون کر کے یہ کہتے ہیں کہ میں پاکستان آرمی سے صوبیدار بول رہا ہوں اور آپ سے چند سوالات کرنے ہیں اور اس آڑ میں ان کی جمع پونجی ہتھیا لی جاتی ہیں فنڈز ٹرانسفر ہوتے ہیں لیکن کسی جگہ شنوائی نہیں ہوتی۔ پیسہ ملک کے اندر ہی حرکت کرتا ہے مگر یہ گروپ آزادانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ان میں بہت سے فون قانون نافذکرنے والے افراد کو بھی آتے ہیں مگر وہ بھی ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ جب یہ حالات ہوں اور کارکردگی کا یہ معیار ہو تو پھر بین الاقوامی برادری آپ کی اہلیت کو سوالیہ نشان بنائے گی۔ شہریوں کی ذاتی معلومات تک محفوظ نہیں ہیں۔ لوگوں کو ان کے ناموں کے ساتھ ایس ایم ایس موصول ہو رہے ہیں اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے اہم اداروں میں کچھ گروپ موجود ہیں جو لوگوں کی معلومات بیچ رہے ہیں۔امید یہ ہے کہ حکومت فیٹف کی آخری شرط کو بھی پور ا کر دے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر ان گروہوں کے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے جو منظم انداز میں مجرمانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔