اقبال اکادمی پاکستان

اقبال اکادمی پاکستان

قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں اقبال اکادمی کا قیام عمل میں آیا، آغاز سے 1960ء تک اس کا صدر دفتر کراچی میں وفاقی وزارتِ تعلیم کی زیر نگرانی رہا، 11 اگست 1960ء کو اس کا مرکزی دفتر دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ 1976ء میں اقبال اکادمی کا دفتر 116 میکلوڈ روڈ جاوید منزل میں منتقل کر دیا گیا، 1977ء میں ایوانِ اقبال کی تعمیر کے دوران اس دفتر کو ایوان ِاقبال منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا لہٰذا 1996ء میں نواز شریف کے دور میں یہ دفتر ایوانِ اقبال منتقل ہو گیا اور نواز شریف نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اقبال اکادمی کا بنیادی مقصد اقبال شناسی کے لیے مختلف محققین و مؤلفین کی کتابوں کی اشاعت تھا، دیگر مقاصد میں سالانہ اقبال ایوارڈز برائے ماہرین ِاقبالیات کا اجرا، اقبالیات کے مواد کو محفوظ کرنا (تاکہ ذخیرۂ اقبال ضائع ہونے سے بچ جائے)، اقبال کے پیغام کا صوتی ریکارڈ مرتب کرنا، اقبالیات پر سیمینارز، کانفرنسیں اور ورکشاپس منعقد کرنا، بیرونِ ممالک میں پیغامِ اقبال کو پہنچانا، اقبال کے کتب خانے تک عوام الناس کی رسائی ممکن بنانا شامل تھا۔ ان مقاصد کی ترویج و ترقی کے لیے 1989ء میں اقبال کتب خانہ قائم ہوا جس کا مقصد علامہ اقبال کی کثیر اللسانی تصانیف کو کتابی شکل میں جمع کرنا تھا، 2003ء میں آن لائن کتب خانہ یعنی ’علامہ اقبال آفاقی کتب خانہ‘ قائم ہوا۔ اب تک اس کتب خانے میں بیس سے زائد زبانوں میں تین ہزار سے زائد کتب آن لائن پیش کی جا چکی ہیں۔ اپریل 1960ء میں اس ادارے سے ششماہی انگریزی مجلہ ’اقبال ویویو‘ بھی جاری ہوا تاکہ پیغامِ اقبال انگریزی زبان میں بھی جدید دنیا تک پہنچایا جا سکے، اس انگریزی مجلے کے پہلے مدید محمد رفیع الدین تھے۔ اس مجلے میں ان تمام علوم سے متعلق مضامینِ اقبال و مقالہ جات شائع کیے جاتے 
رہے جو دراصل علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری اور فکر و فلسفہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی اسلامیات، فلسفہ، تاریخ، ادب، تقابلِ ادیان، آثاریات، فن اور معاشرت وغیرہ۔ اس مجلے کا آخری شمارہ 2009ء میں شائع ہوا، کل شائع شدہ ششماہی شماروں کی تعداد 97 تھی۔ اقبالیات کے فکر و فلسفے کی اردو ترویج کے لیے مجلہ ’اقبالیات‘ کا اجرا ہوا، اس مجلے نے بھی فکرِ اقبال کی ترویج میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اقبال اکادمی نے اپنا خبرنامہ بھی ’اقبال نامہ‘ کے نام سے جاری کیا جس میں محبانِ اقبال کو اقبال اکادمی کی تقریبات اور منصوبوں کے بارے تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں۔
دو سال قبل اس ادارے میں ناظم کا چارج پروفیسر ڈاکٹر بصیر عنبرین نے سنبھالا، آپ کا نام اقبال شناسی میں سند کی حیثیت رکھتا ہے، آپ پنجاب یونیورسٹی شعبہ اقبالیات کی سربراہ بھی رہیں اور ادارہ زبان و ادبیاتِ اردو، پنجاب یونیورسٹی سے بطور ’پروفیسر آف اردو‘ بھی وابستہ ہیں۔ اقبال پر کئی اہم کتابیں تصنیف کیں اور درجنوں علمی و ادبی مقالات تحریر فرمائے۔ دو سال قبل حکومتِ پاکستان نے ایک لمبے وقفے کے بعد اقبال اکادمی کو بہترین منتظم سے نوازا، ڈاکٹر صاحبہ کے چارج سنبھالتے ہی اس ادارے نے ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کیے، درجنوں سیمینارز، ورکشاپس اور اقبال پر سیشنز رکھے گئے، مختلف تعلیمی اداروں کے طالب علموں کے وفود کو اقبال اکادمی کا دورہ کرایا اور انہیں فکر ِاقبال کے مختلف گوشوںسے متعارف کرایا گیا، اقبالیات کے موضوع پر تقریری، مضمون نویسی اور بیت بازی کے مقابلہ جات بھی منعقد ہوئے، ماہرین ِاقبال کے لیکچرز کا سلسلہ بھی جاری ہے، نومبر 2022ء میں بین الاقوامی اقبال کانفرنس بھی منعقد ہونے جا رہی ہے۔ 2012ء سے تعطل کا شکار صدارتی اقبال ایوارڈ کا اجرا کیا گیا (جس میں 2010ء سے 2019ء تک کی کتابوں کو صدارتی اقبال ایوارڈز سے نوازا گیا)، انعام یافتہ کتب کے مصنفین کے لیے عطائے تمغہ کی تقریب بھی رکھی گئی۔ 2010ء کا ایوارڈ ڈاکٹر خالد الیاس (کتاب: استقرائی استدلال اور فکر اقبال) ،2011ء کا ایوارڈ ڈاکٹر اسلم انصاری  (کتاب: اقبال عہد ساز شاعر اور مفکر)،2012ء کا ایوارڈ ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم ( کتاب: علامہ اقبال: مسائل و مباحث)، 2013ء کا ایوارڈ ظفر علی راجا (کتاب: قانون دان اقبال)، 2014ء کا ایوارڈ ڈاکٹر محمد اعجاز الحق (کتاب: اقبال اور سائنسی تصورات)،2015ء کا ایوارڈ ڈاکٹر تحسین فراقی(کتاب: اقبال۔دیدہ بینائے قوم)، 2016-19ء کا ایوارڈ خرم علی شفیق (کتاب:اقبال کی منزل) کو دیا گیا۔ 2012-15ء میں انگریزی کتاب پر ایوارڈ بھی خرم علی شفیق کے نام ہوا۔
ان ایوارڈ کی تقریب کا سارا کریڈٹ نئی ناظمِ اعلیٰ کو جاتا ہے، جن کی کوششوں سے یہ مرحلہ بھی سر ہوا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہماری حکومتیں علمی و ادبی اداروں کی ترقی میں کبھی سنجیدہ نہیں رہیں، ان کا ہمیشہ یہی وتیرہ رہا ہے کہ شعور کے تمام راستے بند کر دیے جائیں تاکہ یہ قوم کبھی ہم سے سوال نہ کر سکے، اگر اس قوم کو تعلیم دیں گے، اس کو جدید معاشی و معاشرتی نظام سے متعارف کرائیں گے تو یہ ہماری رگ رگ سے واقف ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کئی علمی و ادبی ادارے حکومتی استحصال کا شکار ہیں، مجھے خوشی ہے کہ اقبال اکادمی نے اس جمود کو توڑا اور پیغامِ اقبال کی ترویج کے لیے درجنوں نئے منصوبے متعارف کرائے۔ بلاشبہ اس ملک کی بقا فلسفہ اقبال اور پیغام اقبال میں پوشیدہ ہے، ہمیں اپنے معاشی اور معاشرتی نظام کے لیے فکرِ اقبال سے استفادہ کرنا ہو گا، اقبال کسی ایک مکتبہ فکر کا شاعر نہیں بلکہ اس کے فلسفے کی اساس ملت اسلامیہ ہے، اس کا مرد ِ مومن بلاشبہ مذہب و ملت کی قید سے آزاد ہے، اس کا فلسفہ خودی میں قوموں کی ترقی کا راز مضمر ہے لہٰذا ہمیں اپنا معاشی و معاشرتی نظام مضبوط کرنے کے لیے اقبال کی فکر سے استفادہ کرنا ہو گا اور اقبال کا پیغام ہی حقیقی پیغام ہے جس کی بنیاد قرآن و حدیث ہے۔

مصنف کے بارے میں