پاکستان قرضوں کی دلدل میں کیسے پھنسا؟

پاکستان قرضوں کی دلدل میں کیسے پھنسا؟

یکم ستمبر 1947ء کی سہ پہر تھی عالم اسلام کی سب سے بڑی نوزائیدہ مملکت، پاکستان میں دن کے دو بجے تھے، اس وقت پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں دنیا کی اُبھرتی سپر پاور، امریکہ کا قونصل خانہ واقع تھا جسے سفارت خانے کا درجہ دیا جا چُکا تھا تاہم ابھی سفیر کا تقرر نہیں ہوا، قونصل جنرل چارلس لیوس Charles W Lewais)) ہی قائم مقام سفیر کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔سوا تین بجے کے قریب امریکی قونصل خانے میں ایک فون کال آتی ہے اور وہ فون کال پاکستانی وزیر خزانہ، غلام محمد کی ٹیلی فون کال تھی، غلام محمد نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اُن سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، امریکی قونصل جنرل نے ہامی بھر لی تو کچھ دیر بعد ہی پاکستانی وزیر خزانہ ملاقات کرنے کے لیے تشریف لے گئے ۔ دوران ملاقات پاکستانی وزیر خزانہ نے اپنے میزبان کو بتایا کہ اُن کا ملاقات کرنے کا مقصد کیا ہے ساتھ ہی بات کے آغاز میں یہ بھی کہہ دیا کہ میں نے ابھی یہ معاملہ کابینہ میں نہیں رکھا میں دوستانہ انداز سے صرف ابھی معلومات لینا چاہتا ہوں، اس تمہید کے بعد پھر اُنہوں نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ دراصل میری خواہش ہے کہ امریکہ ہمیں ڈالر فراہم کر دے، اور ہم اس رقم کے ذریعے اپنے حکومتی اور عسکری اخراجات پورے کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومت کے پاس نقد رقم کی شدید کمی ہے اگر امریکہ ہمیں رقم دے سکے تو ہم شکر گزار ہونگے۔یہ ایک تاریخی اور یادگار ملاقات ثابت ہوئی کیونکہ اس کے بطن سے ایسے حالات نے جنم لیا جنہوں نے نوزائیدہ مملکت کو بالآخر قرضوں کی دلدل میں اتار دیا، پھر ہر دور میں قرض پہ قرض لیا گیا اور حکمران طبقے کو قرض لینے کی ایسی لت لگی جو آج تک نہیں چھوٹی… اسی لت کے باعث پاکستان آج دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چُکا ہے پاکستان کے حکمران طبقے نے خود انحصاری، اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے بجائے قرضے لینے کا راستہ اختیار کر لیا۔
چلیے ہم اس بات کو بھی چند لمحوں کے لیے مان لیتے ہیں کہ وقت کی ضرورت نے پاکستان کو قرض لینے پہ مجبور کر دیا تھا مگر میں دو اہم پہلوؤں کو واضح کرنا چاہتی ہوں چلیے قرض لے لیا، کیا آج تک یہ قرض لینے کے بعد ہمارے حکمران طبقے نے ایسا سوچا کہ اس قرض کو اس طرح سے استعمال کیا جائے کہ ہمیں دوبارہ قرض نہ لینا پڑے مگر اس طرف بدقسمتی سے کسی کی بھی سوچ نہیں گئی۔ حکمران طبقے نے کبھی اپنی شاہ خرچیوں کو کنٹرول ہی نہیں کیا اور جو قر ض لیا جاتا ہے اس رقم کا تیسرا حصہ جس مقصد کے لیے لیتے ہیں اُس پہ خرچ ہوتا ہے ایک حصہ کمیشن کی مد میں نکل جاتا ہے اور بقیہ تیسرا حصہ ان حکمرانوں کے اکاؤنٹس میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو قرض لیا جاتا ہے اُس رقم کو وقتی طور پہ ضرورتیں پوری کرنے کے بجائے یا اُس رقم کو سڑکیں یا پُل بنانے پہ خرچ کرنے کے بجائے اُس رقم سے ایسے منصوبے یا ایسی انڈسٹری لگائی جاتی جس سے ملک کو دو فائدے ہونا تھے، ایک ملک میں روزگار میسر آتا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا، دوسرا ملک کی معشیت مضبوط ہوتی، اور ہم قرض ادا کر دینے کے ساتھ ہمیں بار بار قرضوں سے نجات بھی مل سکتی تھی مگر افسوس! یہ جمہوریت کے ٹھیکے داروں نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم ملک کی ایسی پالیسیز بنائیں کہ اس محتاجی سے نجات حاصل کر لیں مگر یہ دعوے تو بڑے تجربہ کار ہونے کے کرتے ہیں مگر یہ کوئی بھی ایسی پلاننگ نہیں کرتے جس سے ملک و قوم کو فائدہ ہو سکے بلکہ یہ قرض لے کے ایسے پروجیکٹ شروع کرتے ہیں جس سے اس حکمران طبقے کو فائدہ ہو۔
اس وقت ملک جب بُری طرح معاشی بحران کا شکار ہو چکا ہے تو اب حکمران طبقہ پھر سے اپنی 
بیان بازیوں میں یہی ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ اُنہیں ملک و قوم کی بہت فکر ہے اور وہ مزید قرض لے کر ملک کو بہتری کی طرف لانا چاہتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، مزید قرض سے تو وہ ملک و قوم کو مہنگائی اور قرضوں کی دلدل میں پھینک رہے ہیں اور اب جو ملکی معشیت کو بہتری کی طرف لانے کے لیے اقدام کیا جا رہا ہے وہ ہے سُپر ٹیکس، جو کہ ملک کی بڑی صنعتوں پر عائد کیے جانے کے فیصلے پر ملے جُلے ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔
اب اگر ٹیکس کی ہم بات کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ملک کو چلانے کے لیے یہ نظام بھی بے حد ضروری ہے مگر آج تک بد قسمتی سے ٹیکس کو وصول کرنے کے لیے حکومتی پالیسیز بھی کوئی جاندار نہیں رہی ہیں اور نہ ہی اس کے لیے بہتر حکمت عملی آج تک بنائی گئی ہے، آج تک ٹیکسوں کی مد میں بھی عام طبقہ اور چھوٹا کاروباری طبقہ ہی متاثر ہوا ہے اب اگر صنعتوں پہ سُپر ٹیکس کی بات کریں تو حکومتی سطح پہ جتنے تجربہ کار لوگ بیٹھے ہیں اُنہوں نے سُپر ٹیکس کا تو کہہ دیا مگر اس کے منفی نقصانات کتنے ہونگے اس بارے میں بالکل نہیں سوچا۔
سُپر ٹیکس کے لاگو ہونے سے وقتی فائدہ تو ہو گا مگر اس کے تین بڑے نقصانات سامنے آئیں گے، ایک اس ٹیکس کے لاگو ہونے پہ تمام صنعتکار ٹیکسوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے فوری طور پہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے، جب اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو مارکیٹ میں اُن اشیاء کی ڈیمانڈ میں کمی آ جائے گی۔ نمبر دو، اشیاء کی ڈیمانڈ میں جیسے ہی کمی آئے گی تو انڈسٹری کی پروڈکشن میں بھی کمی آ جائے گی جس سے صنعتکار اخراجات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے بہت سی لیبر کو فارغ کر دیں گے اور بہت سے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے جس کا ایک بار پھر اثر عام عوام پہ ہی پڑے گا ویسے بھی اس ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام پہلے سے ہی تنگ ہے۔ تیسرا اہم پہلو، اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان کی ایکسپورٹ پہ نمایاں اثر پڑے گا پہلے ہی بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ مہنگائی کا سبب بن چُکا ہے۔ یہ وہ اہم پہلو ہیں جن کا ہمارے ملک کی انڈسٹری پہ منفی اثر پڑے گا، بہتر ٹیکس کا نظام چلانے کے لیے حکومتی سطح پہ بہتر پلاننگ اور حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ میرا تو یہی اپنے ملک کے حکمرانوں کو کہنا ہے کہ ماضی سے کچھ سیکھئے۔
ماضی میں زرداری دور میں بھی ہماری انڈسٹری تباہ حال ہوئی اور بہت سی انڈسٹری بنگلا دیش شفٹ ہوئی، اگر اُن حالات کو پیش نظر رکھا جائے پاکستانی معیشت بین الاقوامی حالات ماضی کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں جس شدید بحران سے دوچار ہے وہ کوئی راز نہیں۔ پچھلے پونے چار سالہ دور میں مستحکم معاشی حکمت عملی کے فقدان، وزراء خزانہ کی بار بار تبدیلی، سی پیک سمیت ترقیاتی سرگرمیوں کی بندش، قرضوں کے بوجھ میں اضافہ نیز گندم اور چینی کے سکینڈل ، جس سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا۔ پھر کووڈ کی وبا نے پوری دُنیا کو کساد بازاری کا شکار کیا، جبکہ روس اور یوکرائن جنگ نے تیل اور گیس کی عالمی سطح پر شدید قلت پیدا کر دی۔ ان سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کوئی نئی حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے کیونکہ اس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے بہتر حل صرف سُپر ٹیکس نہیں۔ خدشہ ہے کہ ہماری انڈسٹری مزید زوال پذیر نہ ہو جائے، یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالکان پرسپر زرعی ٹیکس کیوں عائد نہیں کیا گیا جبکہ اس طرح قومی خزانے کو خطیر مالی وسائل حاصل ہو سکتے ہیں صرف صنعتوں پہ لگائے گئے سُپر ٹیکس میں بھی کمی آسکتی ہے۔
ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے اگر حکومت یہی تین کام سر انجام دے لے تو بہت حد تک ہم ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ایک تو اپنے ملک کی انڈسٹری کو بہتر کرنے کے لیے ضروری توجہ اور پلاننگ کی جائے اور قرض کے پیسوں سے اول جلول کام کے بجائے نئی اندسٹری لگائی جائے جس سے معشیت کی بہتری کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے، دوسرا ہمارا ملک زرعی ملک ہے، زراعت پہ زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔ تیسرا بلوچستان پہ توجہ دی جائے جہاں قیمتی معدنیات کا خزانہ چھپا ہوا ہے اُس کو استعمال میں لاتے ہوئے ہم بہت سی مشکلات سے نکل سکتے ہیں مگر یہ کرے گا کون جو حکمران بھی آتا ہے اُس کو صرف ایک ہی راستہ آتا ہے وہ ہے قرض، جس کی وجہ سے ملک روز بہ روز دلدل میں ہی پھنستا جا رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں