ہوتا ہے جادہ پیماں پھر کارواں ہمارا

ہوتا ہے جادہ پیماں پھر کارواں ہمارا

نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی سرگرمیوں سے واقفانِ حال بخوبی علم رکھتے ہیں کہ یہ قومی اور علمی ادارہ قوم سازی کے سفر میں مختلف النوع تقریبات منعقد کرتا رہتا ہے۔ یہ سرگرمیاں سال بھر کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتی ہیں۔ ادارے کی روزانہ کی بنیاد پر منعقد ہونے والی سرگرمی پاکستان آگہی پروگرام ہے جس کے دوران طلبا و طالبات ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان اور ایوانِ قائداعظم، جوہر ٹائون کا دورہ کرتے ہیں یہاں وہ تحریک پاکستان گیلری اور ڈاکیومنٹری دیکھنے کے ساتھ ساتھ معلومات سے بھرپور لیکچر میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح ٹرسٹ کے کُہنہ مشق پروفیسر صاحبان آگہی لیکچرز کے لیے ہر سطح اور نوع کے تعلیمی اداروں میں بھی جاتے ہیں۔ یہ سرگرمی پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے کامیابی و کامرانی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان، معلمین و معلمات اور طلبا و طالبات اس پروگرام میں بھرپور دلچسپی کااظہار کرتے ہیں۔ وہ بعض اوقات یہ شکوہ کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ ان کے تعلیمی ادارے کو زیادہ سے زیادہ مرتبہ پاکستان آگہی پروگرام کا حصہ بنا یا جائے۔ قارئین کی آگاہی کے لیے بتاتا چلوں کہ ٹرسٹ کی پالیسی ہے کہ ایک سال میں کم از کم ایک مرتبہ ہر تعلیمی ادارے کو آگہی پروگرام میں شرکت کا موقع ضرور فراہم کیا جائے۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کا مطالبہ بجا محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان آگاہی پروگرام سالانہ بنیادوں پر بیرونِ لاہور بین الاضلاعی اور بین الصوبائی سطح پر بھی کم از کم ایک ہفتے کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔ ہماری معروضات کا تمہیدی پیراگراف طول پکڑ رہا ہے۔ آج کے موضوع سخن کی طرف آتے ہیں اور وہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام سالانہ بنیادوں پر منعقد کیا جانے والا نظریاتی سمر سکول ہے۔ امسال اس کا 22واں سالانہ تعلیمی سیشن ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان میں جاری ہے۔ اس سال کی کئی ایک خاص باتیں ہیں کہ یہ پہلا تعلیمی سیشن ہے جس میں ریکارڈ 325کے قریب طلبا و طالبات شریک ہیں۔ ان بچوں کا تعلق لاہور کے 100کے قریب تعلیمی اداروں سے ہے۔ اسی طرح یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایوانِ قائداعظمؒ، جوہر ٹائون کے اطراف و اکناف کے طلبا و طالبات کی سہولت کے لیے ٹرسٹ نے خصوصی شٹل بس سروس کا اہتمام کیا ہے جو روزانہ صبح 8:30بجے بچوں کو لے کر ایوانِ کارکنانِ پہنچتی ہے۔ ٹرسٹ کے بانی چیئرمین اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم نے یہ ادارہ نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت کے لیے یہ ادارہ قائم کیا تھا۔ وہ ادارے کے قیام کے بعد جلد ہی سیاسی مخالفین کی سفاکیت کا شکار ہوکر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ وہ ایک ادارہ ساز شخصیت تھے۔ اُنہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی داغ بیل ڈال کر اپنے متقدمین کے لیے عمل کی سمت متعین کردی تھی۔ ان کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی نے بطور چیئرمین ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ان کی کوششوں کے طفیل ایوانِ قائداعظمؒکی تعمیر شروع ہوئی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کے ایک اور علمی اثاثے مرحوم ڈاکٹر رفیق احمد کی خدمات کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ اُنہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے ایجوکیشنل ونگ، پاکستان آگہی پروگرام، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی مطبوعات، نظریاتی سمر سکول، نظریۂ پاکستان فورمز غرض پر ایک شعبے کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ اسے ایک دُلہن کی طرح تیار کیا۔ وہ نظریاتی سمر سکول کے ہر سیشن میں نسل نو کی نظریاتی ذہن سازی‘ قومی جوش و جذبے اور حب الوطنی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ مارچ 2020ء میں اپنی وفات سے قبل وہ فالج کے شدید حملے کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ پیرانہ سالی اور ضُعف کے باوجود سمر سکول میں بچوں سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ ان کے ویژن کے مطابق ہی سکول میں طلبا و طالبات کے داخلے کے قواعد و ضوابط وضع کیے گئے تھے کہ عمر کی بالائی حد 13سال ہوگی۔ وہ کہتے تھے کہ 13سال کے بعد بچے کی دلچسپیوں کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے سوچنے، بولنے اور رد عمل کے انداز میں واضح تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے اور فی الواقع ایسا ہی ہے۔ ٹرسٹ کی انتظامیہ اس کوشش میں مصروفِ عمل ہے کہ نظریاتی سمر سکول کو اسی ویژن کے مطابق لے کر آگے بڑھا جائے جو اس کے بانیان کی خواہش تھی۔ وہ عظیم ہستیاں چونکہ تحریک پاکستان کی کارکن تھیں۔ اُنہوں نے صرف انفرادی طور پر تحریک پاکستان میں پرجوش اور سرگرم کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ وہ دامے، درمے، قدمے اور سخنے بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر قیادت اس عظیم جدوجہد میں عملاً شریکِ کار تھیں۔ تحریک پاکستان کی کامیابی کے بعد تعمیر پاکستان میں بھی ان لوگوں نے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا تھا اور حصہ بقدر جثہ سے بڑھ کر کام کیا۔ اسی لیے ان میں ایک خالص تڑپ تھی کہ نئی نسل تعمیر پاکستان کی ذمہ داریوں کو اس کی حقیقی روح کے مطابق سمجھے کیونکہ دنیا میں کوئی قوم، قبیلہ یا فرد نظریہ کے بغیر زندگی نہیں گزارتا اور نہ ہی گزار سکتا ہے۔ آج اسی عزم اور اسی عہد کی تجدیدِ نو کرتے ہوئے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نظریاتی سمر سکول کی شکل میں ایفائے عہد کررہا ہے۔

مصنف کے بارے میں