مستحکم پاکستان سب کے مفاد میں!

مستحکم پاکستان سب کے مفاد میں!

سیاسی حالات اگر ایک طرف رکھ دیں اور صرف ملک کا سوچیں تو ہمیں اس وقت ایک معاشی این آر او کی ضرورت ہے، معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور معاشی طور پر امپورٹ کم کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہیں کریں گے تو ملک میں باہر سے انویسٹمنٹ آنے یا بڑی بڑی کمپنیاں بنانے کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ تو کیوں نہ ہم سب سے پہلے ملک کو بہتر بنانے کے لیے ایک تھنک ٹینک بنا لیں جس کا کام پاکستان میں جاری معاشی پالیسیوں کو دیکھنا ہو ، وہ دیکھے کہ کونسی پالیسی ملکی مفاد میں بہترین ہے، اور کونسی معاشی پالیسی مافیاؤں کے حق میں۔ اور پھر یہ دیکھے کہ ہم بطور قوم کیسے کفایت شعار بن سکتے ہیں؟ کیسے ملک کی بہتری کے لیے سوچ سکتے ہیں کیسے ہم بھی ملکی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ کیوں کہ فی الوقت تو ہماری حالت ایسی ہے کہ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اس وقت دنیا میں صرف 5 ممالک ہیں، پانچوں ممالک کی آبادی، رقبہ اور زمینی کیفیت ایک جیسی ہے، ان ممالک کو خرچ کرنے کے لیے ایک ایک ارب ڈالر دیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ پانچ سال بعد آپ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، اب ان ممالک میں بسنے والی قومیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لہٰذاوہ خرچ بھی اپنے طریقے سے کریں گی۔
مثلاً ایک قوم کے جینز میں دکھاوا زیادہ ہے، تو دوسری قوم کی طبیعت غلامانہ سی ہے، جبکہ تیسری قوم معتدل مگر سہل پسند ہے، چوتھی قوم محنتی ہے اور پانچویں محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی ہے۔ لہٰذا پانچ سال گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ پہلی تین قومیں پیچھے رہ گئیں اور چوتھی اور پانچویں آگے نکل گئیں۔ جبکہ پہلی تین قوموں میں سے پہلی اور دوسری نے ایک ارب ڈالر بھی خرچ کر ڈالا اور اس کے ساتھ مزید ڈھائی تین ارب ڈالر قرض بھی چڑھا لیا جبکہ معتدل اور سہل پسند قوم نے نہ تو قرض لیا اور نہ ہی اپنا پیسہ کسی فضول کام میں لگایا۔ اب ذرا خیالات کی دنیا سے باہر نکل آئیں اور موازنہ کریں کہ ہماری مثال بھی پہلی دو قوموں کی سی ہے جن میں دو خرابیاں ہیں ایک ’’دکھاوا‘‘ اور دوسرا ’’غلام طبیعت‘‘۔ دکھاوے کی اگر مثال لی جائے تو ہمسایہ ملک بھارت چلتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے اکثر سنا ہے کہ وہاں کے عوام غریب اور حکومت امیر ہے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے، وہاں صرف دکھاوا کم ہے۔ ایسا اس لیے کہ وہاں کی حکومت نے ’’امپورٹڈ‘‘ نامی چیزیں عوام میں شروع ہی سے عام نہیں ہونے دیں۔ اس کے دو فائدے ہوئے ایک تو وہاں کے عوام کے اندر ’’دکھاوا‘‘ جیسی اجتماعی بیماری نے جنم نہیں لیا۔ دوسرا حکومت نے ایسا کر کے اپنے ڈالر مشکل وقت کے لیے بچا کر رکھے۔ جبکہ آپ ہماری حکومتوں کو دیکھ لیں ہم نے شروع ہی سے ’’امپورٹڈ‘‘ کا لفظ اپنے بچوں کے ذہنوں میں ڈالنا شروع کیا۔ جس سے ہماری نسلوں میں ’’دکھاوا‘‘ جیسی بیماری نے جنم لیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے سارے ڈالر ، ساری کمائی انہی امپورٹڈ چیزوں کو منگواتے گزر جاتی ہے اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مثلاً سال 2021ء کی رپورٹ کے مطابق ہم نے 55 ارب ڈالر کی چیزیں باہر سے منگوا کر استعمال کیں۔ جبکہ صرف 28 ارب ڈالر کی مصنوعات ملک سے باہر بیچ سکے یعنی 27ارب ڈالر کا خلا ہم نے ادھر اُدھر سے پکڑ کر پورا کیا۔
بہرحال اگر آج حکومت ہمیں یہ کہتی ہے کہ چائے کی پتی چونکہ باہر سے امپورٹ کرنا پڑتی ہے اس لیے اس کا استعمال کم کر دیں تو ہمارا رویہ مزاح میں بدل جاتا ہے، اگر حکومت کہتی ہے کہ سگریٹ نہ پیو! تو ہم ضدی بچے بن کر سگریٹ زیادہ پینا شروع کر دیتے ہیں، اگر حکومت اس پر ٹیکس لگاتی ہے تو ہم نفسیاتی مریض بن کر بطور ’’سٹینڈر‘‘ بڑے بڑے برینڈز کے سگریٹ کی ڈبی ہاتھ میں پکڑ کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذاجب تک ہم بطور قوم ٹھیک نہیں ہوں گے ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ہمیں ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اس وقت معیشت تحلیل ہو رہی ہے، برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی کو اس المیے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں۔
اور پھر ہم جہاں تک آ پہنچے ہیں اس میں کسی ایک حکمران کا قصور نہیں اس کہانی میں سبھی کردار شامل ہیں۔ یہ کہنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں کہ ہم تو اچھی معیشت چھوڑ گئے تھے، فلاں نے تباہ کر دی۔ معیشت اعداد و شمار کی واردات سے بہتر نہیں ہوتی۔ معیشت آمدن کے امکانات سے بہتر ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ ہماری برآمدات ہی کتنی ہیں؟ کہنے کو ایک زرعی ملک ہیں لیکن زرعی برآمدات کا عالم کیا ہے؟ کیا کوئی مربوط پالیسی کبھی متعارف کرائی گئی؟ کپاس آپ کی معیشت میں کتنی اہم ہے، اس حوالے سے ہماری پالیسی کیا رہی؟ ہمارے ہاں کیا کسی صنعت نے ایسی ترقی کی کہ ہم اطمینان کا اظہار کر سکیں؟
ہماری معاشی ترک تازی کی کل متاع اتنی سی ہے کہ ہم قرض لیتے رہے، ملک چلاتے رہے اور کاغذ پر اعداد و شمار کے کمالات دکھاتے رہے۔ ہمیں اب خود کو اور دوسروں کو مزید دھوکہ دینے سے اجتناب کرتے ہوئے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ معیشت کے میدان میں ہم سب ناکام ہوئے ہیں۔ مختصر سی کہانی یہ کہ یہ ڈھلوان کا سفر تھا، معیشت اقوال زریں سے بہتر ہو سکتی ہے نہ ہی احتساب کے کوڑے سے اور نہ ہی بھینسیں بیچ کر۔ معیشت کو بہتر کرنا ہے تو پیداواری امکانات بڑھا کر اپنی اجتماعی ذرائع آمدن میں اضافہ کرنا ہو گا۔ یہ کام کیسے ہو گا؟ اس کے لیے میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ الزام اور طنز و تشنیع کے چکر سے نکل کر سب کو بیٹھ کر ایک پائیدار اور طویل المدت معاشی پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔ سیاست جیسے مرضی کرتے رہیے لیکن مل بیٹھ کر یہ طے کر لیجیے کہ اگلے 20 سال کے لیے پاکستان کی معاشی سمت یہ ہو گی اور اس کی معاشی پالیسی کے بنیادی خدوخال یہ ہوں گے۔ اقتدار کی تبدیلی اس پالیسی کی جزئیات میں تو حالات کے مطابق رد و بدل کر لے لیکن پالیسی کا بنادی ڈھانچہ مستقل رہے۔ سرمایہ کار کو بھی پتہ ہو کہ اس ملک میں اگلے 15 سال کے معاشی امکانات کیا ہیں اور چیلنج کیا ہیں اور وہ سرمایہ کاری کرنا چاہے تو اسے غیر یقینی کی کیفیت اپنی گرفت میں نہ لیے رکھے۔ اس لیے ہمیں وسیع تر مفاد میں سوچنا ہو گا، وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کریں، اُس میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر پارٹی تحریک انصاف کو اعتماد میں لے۔ اور بڑے فیصلے کریں تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو اور ملک میں حقیقی خوشحالی آ سکے۔

مصنف کے بارے میں