'ایون فیلڈ ریفرنس، ایسی دستاویزات نہیں جن سے ثابت ہو نواز شریف بینیفیشل اونر ہیں'

'ایون فیلڈ ریفرنس، ایسی دستاویزات نہیں جن سے ثابت ہو نواز شریف بینیفیشل اونر ہیں'

اسلام آباد: احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کے بیان پر جرح جاری ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح شروع کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ نے ایون فیلڈ پراپرٹیز سے متعلق نواز شریف کی ملکیت کی کوئی دستاویزات پیش کیں جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہیں ایسی دستاویزات ہمارے پاس نہیں اور نہ پیش کیں کیونکہ ایون فیلڈ پراپرٹیز، نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تھیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا نواز شریف ایون فیلڈ پراپرٹیز کے بینیفیشل اونر ہیں ایسی کوئی دستاویز پیش کی جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ ایسی دستاویزات پیش نہیں کیں جن سے ثابت ہو نواز شریف بینی فیشل اونر ہیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کوئی ایسی دستاویزات کہ ماضی میں کبھی نواز شریف ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر تھے جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں:   چیف جسٹس کو جو کام نہیں کرنے چاہیے وہ نہ کریں اور جو کرنےچاہیے وہ کریں ,نواز شریف

خواجہ حارث نے ایک اور سوال کیا کہ ایف آئی اے اور بی وی آئی نے کوئی دستاویزات دی تھیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر تھے جس کا جواب بھی انہوں نے یہی دیا کہ ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں۔

نواز شریف کے وکیل نے سوال کیا نیلسن اور نیسکول کے ساتھ کیا غیر سرکاری فرم موزیک فونسیکا ڈیل کر رہی تھی جس پر واجد ضیا نے کہا کہ یہ درست ہے کہ یہ غیر سرکاری مگر رجسٹرڈ فرم ہے۔

خواجہ حارث نے سوال کیا موزیک فونسیکا نے کوئی ایسی معلومات دیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر ہیں جس کا جواب واجد ضیا نے دیا کہ نہیں کوئی ایسی معلومات نہیں دی گئیں۔

واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے موزیک فونسیکا سے براہ راست کوئی خط و کتابت نہیں کی جبکہ موزیک فونسیکا پرائیویٹ لا فرم تھی اور ہم نے براہ راست بی وی آئی اٹارنی جنرل آفس سے خط و کتابت کی۔

 یہ خبر بھی پڑھیں: اولاد بھی دبا کے جھوٹ بولتی ہے جیسے نواز شریف خود بولتے ہیں، عمران خان

واجد ضیاء نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ہم نے بی وی آئی کی ایف آئی اے کو خط لکھا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ والیم چار کا صفحہ 53 اور 54 دیکھیں۔ کیا یہ خط بی وی آئی کی ایف آئی اے نے نہیں لکھا جس کے جواب پر واجد ضیاء نے کہا کہ جوابی خط مجھے براہ راست نہیں ملا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ جتنا مرضی گھمائیں میرا سوال وہی ہے۔

واجد ضیاء نے کہا کہ خط ڈائریکٹر فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کے دستخط کے ساتھ تھا جو جے آئی ٹی کے نام لکھا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ خط کے مندرجات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ خط اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔ واجد ضیاء نے کہا یہ درست ہے کہ خط کے مندرجات سے پتا نہیں لگ رہا کہ یہ اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔

جے آئی ٹی سربراہ نے مزید کہا کہ جزوی طور پر درست ہے کہ بینیفیشل اونر کا نتیجہ 2012 اور 2017 کے 2 خطوط کی بنیاد پر نکلا جس پر نواز شریف کے وکیل نے فاضل جج سے درخواست کی کہ یہ رضا کارانہ جواب دے رہے ہیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنا لیں۔

واجد ضیاء نے کہا کہ ان دو خطوط اور وہاں کے قوانین کے مطابق بینی فیشل اونر کا نتیجہ نکالا تاہم رجسٹرڈ آف شئیر ہولڈرز کی اصل دستاویزات کبھی نہیں دیکھیں۔

سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہوں تاہم جے آئی ٹی کے سامنے صرف طارق شفیع نے کہا کہ گلف اسٹیل کا شئیر ہولڈر شریف خاندان ہے اور کسی گواہ نے نہیں کہا کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران واجد ضیاء نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا جبکہ احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے قطری خط اور 3 اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور کی تھی۔

 

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں