ادب اور معیشت

ادب اور معیشت

ادب اور معیشت کے مابین بظاہر کوئی واضح تعلق نہیں تاہم دونوں شعبوں کے تجزیے کے بعد میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ دونوں شعبے ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ادب قوم کی معاشی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے  جو پائیدارمعاشی ترقی کوفروغ دینے کیلئے پہلا قدم ہے۔
فی زمانہ اور تاریخی طور پربھی دونوں شعبوں کی اقتصادی فکر اور ادبی مباحث براہ راست اور متناسب طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اس کا ثبوت ہند - یورپ (Indo-Europe )ویدک تحریروں (تقریبا 1500 قبل مسیح)، یہودی تہذیب کی قدیم تحریروں، اور یونانی تاریخی دستاویزات میں ملتا ہے جنھیں آج سماجی معیشت کی بنیاد کے طور پرتسلیم کیا جاتاہے۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو انسانی نفسیات، اخلاقی فلسفہ، سیاسیات، سماجیات اور عام فہم کے عناصر کو روایتی اقتصادی فکر میں شامل کرتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ تہذیب کی بنیاد ادب ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ 
قوموں کی ثقافت میں ادب کی مرکزیت پر بات کرتے ہوئے مجھے امریکی مصنف رے بریڈبری (Ray Bradbury)کے الفاظ یاد آرہے ہیں کہـ’’کسی کرنے کے لیے تمھیں کتابیں جلانے کی ضرورت نہیں، بس لوگوں کو انھیں پڑھنے سے دور کر دو‘‘
تہذیب کے ارتقا میں ادب نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ادبی فکر مذہب، فلسفہ، فن اور تہذیب کی بنیاد ہے۔ تاریخی طور پر انقلابی تحریکوں میںہمیشہ سے ادب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مائو زے تنگ کی ’’سرخ کتاب‘‘کو ہی دیکھ لیں جس نے چین کو"Century of Humiliation"  سے نکال کر آج باوقار علاقائی طاقت بنا دیا ہے۔
برطانوی صنعتی انقلاب کا قصہ بھی چارلس ڈیکنز کے’’ہارڈ ٹائم‘‘،  ڈینیئل ڈیفو کے’’رابنسن کروسو‘‘اور ماریا ایچ ورتھ کے ’’اینوئی‘‘  جیسے طاقتور اور پراثر ادب پاروں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا جنھوں نے اُس ہنگامہ خیزی کے دورمیں عوامی فکر کوسمت مہیا کرنے میں مدد دی اور ایسا ہی فرانسیسی اور روسی انقلاب میں ہوا۔ حتیٰ کہ برطانوی سامراج کے دوران کا ہندوستانی ادب بھی اسی راستے پر گامزن رہا جس نے علم و ادب اور تحریر و تقریر کے ذریعے عوامی فکرکو بیدار کر کے آنے والی دہائیوں میں پُر عزم جدوجہد کیلئے تیار کیا باقی کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 
خالص پاکستانی ادبPartition  کے بعد وجود میں آیا مگر اس کی جڑیںبرصغیر اور جنوبی ایشیا کی ادبی روایات میں ہیں۔ اس نئی ریاست کو شاندار ادب و ثقافت ورثے میںملی اور چند ہی برسوں میں پاکستان کی تمام زبانوں اردو، پنجابی ، پشتو، سندھی، سرائیکی، فارسی اور بلوچی وغیر ہ میں شاندار ادبی کام شروع ہو گیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد تخلیق ہونے والاپاکستانی ادب اس دور کے سماجی و اقتصادی بحران کے گرد گھومتا ہے۔ پھر پاکستانی ادب کا بیانیہ رفتہ رفتہ ترقی پسند ہو کر خطے کی مقامی لسانی شکلوں اور ادبی اسلوب کو ضم کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور پیچیدہ طبقاتی نظام، سماجی مسائل و خدشات اور پاکستانیوں کی زندگیوں کو تشکیل دینے والی معاشی قوتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
موجودہ زمانے کے معاشی پاور ہائوسز امریکہ ، جاپان اور جرمنی کو گزشتہ 3صدیوں میںتکنیکی ، سماجی اور معاشرتی اختراعات کے باعث جو عروج حاصل ہوا ہے وہ چھوٹا نہیں، اس کی جڑیں بھی علم و ادب میں ہیں۔تاہم المیہ یہ ہے کہ زبان مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ماہرین اقتصادیات اور مصنفین مختلف طریقوں سے ایک ہی طرح کے موضوعات اور خدشات کو دریافت کرتے ہیں ۔
 ادبی نظر سے معاشی تاریخ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح بڑی اور پیچیدہ طاقتیں افراد کی سطح پر انفرادی زندگی کو ڈھالتی اور اجتماعی سطح پر معیشت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ادب ہمیں انسانوں کی معاشی زندگی میں جھانکنے کا موقع اور ’’کام کے معاشی نظریات‘‘  فراہم کرتا ہے۔
ادب میں اپنے قارئین کو افراد کے تجربات سے جوڑنے کی صلاحیت ہے وہ اپنے آپ کو چیزوں سے منسلک پاتے ہیں ، سماجی تفریق محسوس کرتے ہیں بحثیت صارف، بطور کارکن اور اشیاء بنانے والا کردار دیکھائی دیتا ہے۔ ناول بذات خود  بائیٹ سائز فارمیٹ(bite-size format)کی مانند جیسے ہماری زندگیوں میں انٹرنیٹ ہے  عدم مساوات کے خلاف بغاوت، ناخواندہ عوام کو علم اور بصیرت تک رسائی فراہم کرنے کیلئے معلومات کو جمہوری بنانے کے ذریعے کے طور پر ڈھلا ہے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ عظیم ادیبوں کے تصورات میں ہمیشہ سے معاشی مباحث پیوست رہے ہیں جن کے آج بھی اقتصادی فیصلہ سازی پردوررس اثرات موجود ہیں۔ 
جیسے مارکسزم کابنیاد اور اعلی ڈھانچے (The Base & Superstructure) کانظریہ ۔بنیاد سے مراد پیداواری طاقت( میٹریل اور وسائل جو معاشرے کو سامان بنانے کیلئے درکار ہوتے ہیں) اور اعلی ڈھانچے سے مرادمعاشرے کے دیگر  پہلو جیسا کہ نظریات ، ثقافت ، فلسفہ، فن اور ادب ۔ 
مارکس اس مشاہدے کے ساتھ حیران کن نتیجے پر پہنچا کہ بنیاد اعلی ڈھانچے کو تشکیل دیتی ہے اور سپر سٹرکچر بنیاد کو قائم رکھتا ہے اسی وجہ سے کسی بھی ملک کی معیشت اور ادبی تخلیقات میں ایک مضبوط ربط قائم ہے۔ ادب کے اثرات نہ صرف مالیاتی معیشت بلکہ سیاست پر بھی ہوتے ہیں ۔ جان اسٹیورٹ مل، ایڈم اسمتھ، میکس ویبر جیسے سوچ رکھنے والے رہنماؤں نے اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے سیاسی فکر اورمباحث کاپورا نظام تشکیل دیا ہے۔
معروف ماہر اقتصادیات رابرٹ شیلر کے’’بیاناتی معیشتوں‘‘ (Narrative Economies)کے تصور کا تذکرہ کیے بغیر ادب اور معیشت کے درمیان تعلق کے بارے میں مزید وضاحت کرنا بے معنی ہوگا۔ بیانیہ معیشتیں’’مقبول بیانیوں کے پھیلاؤ اور حرکیات ، کہانیوں، خاص طور پر انسانی دلچسپی ، جذبات کا مطالعہ اور یہ سمجھنا کہ وقت کے ساتھ کیسے معاشی اتار چڑھائوآتے ہیں‘‘ ۔
ادب سماجی و ثقافتی تناظر کو اجاگر کرتے ہوئے ماہرین معاشیات کے سوالات کو عوام اور معیشت کے کام کاایک نیا تناظر فراہم کرتا ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی (خاص طور پر ادب اور آرٹ)سے تعلق رکھنے
 والے پیشہ ور افراد کاروبار اور اس کے طریق کار کو نئے تناظر فراہم کرتے ہیں۔خالصتاً نظریاتی موقف اپنانے کے بجائے حکمت عملی لوگوں کے اُن تجربات سے ہم آہنگ ہونی چاہیے جو وہ چاہتے ہیں۔ اس طرح پالیسی فریم ورک انسانی رویوں کے بارے بہت بہتر سمجھ آ تا ہے اوراس کام کے لیے ادب سے زیادہ مفید چیز کوئی اور نہیں ہو سکتی۔معاشی حقائق کو سمجھنے اور تبدیلی لانے کیلئے صرف تکنیکی مہارت کافی نہیں ، دنیا کو بدلنے کی صلاحیت، بصیرت اور طاقت ِابلاغ اور بیانیہ میں ہے۔
بطور دی بینک آف پنجاب ہم اپنی آنے والی نسلوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کیلئے نہ صرف پُر عزم ہیں بلکہ ہراس قدم کا حصہ ہیں جومعاشرے کے استحکام اور خوشحالی کیلئے اٹھایا جائے۔ ہم نہ صرف معاشرے کی سماجی و اقتصادی بہتری کیلئے کی جانے والی ہر سرگرمی بلکہ ان سرگرمیوں کی جو روایتی طور پر معیشت پر اثر انداز ہونے والی نہیں سمجھی جاتیں ، حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔
کراچی اور لاہور ادبی میلوں جیسی سرگرمیاں نہ صرف پورے معاشرے کی عمومی ترقی بلکہ ملک کی معاشی ترقی کیلئے نہایت مفید ہیں۔ دی بینک آف پنجاب ان شاندار میلوں کا ٹائٹل سپانسر ہونے پر بجا طور پر فخر محسوس کرتا ہے اور ملک بھر میںترقی و استحکام کیلئے اس طرز کی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے سرگرم ہے۔
 میرا مقالہ کا مقصد ان حقائق کوواضع کرنا ہے کہ ادب اور فن و ثقافت کا فروغ کسی بھی قوم کی معاشی بہبود اور پائیدار ترقی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ بالآخر جس کا فائدہ تجارتی تنظیموں کو ہوتا ہے بس انہیں اس کے لیے صرف تھوڑا صبر کر نا ہوگا۔ ہماری آنے والی نسلوں کی کردار سازی اور ترقی کیلئے  دی بینک آف پنجاب کی مانند دیگر اداروں کو بھی ادراک اور احساس کے ساتھ ادب کے فروغ کیلئے کی جانے والی سرگرمیوںحصہ لینا ہو گا 
آخر میں،اس مقالہ کیلئے میں اپنے کولیگز نوفل دائود،صائم علی اور حمزہ خان کی کاوشوں کو سراہتا ہوں۔
آپ سب کا بہت شکریہ۔  

مصنف کے بارے میں