اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ شمار ہو گا: چیف جسٹس

اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ شمار ہو گا: چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاءبندیال نے کہا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ شمار ہو گا۔ وزیراعظم نے ہمارے بیانات کا حوالہ دیا، سیاسی رہنما ججز کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں اور سیاسی بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔
تفصیلات کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی جس دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقننہ نے امیدواروں سے بیان حلفی لینا ضروری قرار نہیں دیا لیکن عدالت نے انتخابات شفاف بنانے کیلئے امیدواروں کوبیان حلفی دینا ضروری قرار دیا، جو کام مقننہ سے ’مسنگ‘ ہو وہ عدالت کراسکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دئیے کہ کتابیں کھولنے سے پہلے اراکین کے کردار کی شقوں کو دیکھنا ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو تاحیات نااہلی کی شق سے کیسے جوڑ سکتے ہیں، اراکین اعتماد توڑ کر کیا خیانت کررہے ہیں؟اعتماد کے تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹرزکا اعتماد اور جماعت کے منشور سے منتخب ہونا اس اعتماد کی بنیاد ہے، ووٹر کے ایک دفعہ ووٹ دینے پر 5 سال کیلئے نمائندہ منتخب ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ایک بار تیر کمان سے نکل گیا تو واپس نہیں آسکتا، تیر ووٹرز کی توقعات کے بجائے کہیں اور جالگے تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے کہ کتنے عرصے کی نااہلی ہونی چاہئے، اگر ہم فرض کریں کہ انحراف پر نااہلی ہی ہونی چاہیے تو کتنی ہو؟ نااہلی 3 یا 5 سال کی ہوتی ہے، اگر قانونی بددیانتی پر بات ہو تو ایک مزید بحث شروع ہو جائے گی۔
جسٹس منیب اختر ریمارکس دئیے کہ انحراف اور نااہلی کی شقوں کی زبان ایک ہی ہوتی ہے، تو کیا انحراف اور نااہلی کی شقوں پر قانون سازی نہیں ہونی چاہیے؟ جن کیسز کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی سے متعلق ہیں، موجودہ کیس منتخب ہونے کے بعد انحراف کا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انحراف سے متعلق الیکشن قوانین موجود ہیں، سب قوانین موجود ہیں تو سپریم کورٹ کیوں آئے ہیں؟ اگر کوئی انحراف کرتا ہے تو آپ ہم سے مزید کیا چاہتے ہیں؟ جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ عدالت کے سوالوں کا کیا تاثر دیا جارہا ہے؟ وزیراعظم نے ہمارے سوالات کا حوالہ دیا، آپ ججز کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے سوالات پر اخبارات میں ایسا تاثر دیا گیا، اخبار نے سرخی لگائی کہ سپریم کورٹ نے کہا ریفرنس واپس بھیجیں گے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی بیانات دینے سے منع نہیں کر سکتے لیکن سیاسی رہنما ججز کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں اور سیاسی بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم کو غیرذمہ دارانہ بیانات سے گریز نہیں کرنا چاہیے؟ اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ڈی سیٹ ہونے والا دوبارہ ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے؟ جبکہ جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے پوچھا کہ آپ نااہلی کی مدت کیسے مقرر کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہم توقع کر رہے ہیں کہ آج آپ دلائل مکمل کرلیں گے جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ پارلیمینٹ کی کارروائی کا تعلق عدالت کی سماعت سے نہیں، آج شاید دلائل مکمل نہ کر سکوں۔ 
جسٹس مظہرعالم کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کمالیہ میں کہا سپریم کورٹ کے ججز کو ساتھ ملایا جا رہا ہے، اس کو بھی دیکھیں، سوشل میڈیا ٹی وی پر سنا تھا، کیا آپ نے وزیراعظم کی بات کا نوٹس لیا ہے؟ عدالتی سوالات کو کس طرح لیا جاتا ہے۔ کیا ایسے سیاسی بیانات دئیے جانے چاہئیں؟ 
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر اعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے؟ کیا وزیراعظم کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جا سکتا؟ وزیراعظم کو اعلیٰ عدالتوں کے فورم پر اعتماد نہیں تو ان کے نمائندوں کو کیسے ہو گا جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تقاریر سنتا نہیں اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا، عدالت عدالت سے باہر کیا ہو رہا ہے اسے عدالت کو نہیں دیکھنا چاہیے اور بیانات اور تقاریر سے متاثر بھی نہیں ہونا چاہئے، وزیراعظم کو عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔ 
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ قومی ٹی وی چینلز پر چلا اور سب نے دیکھا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میڈیا نے تو کل یہ بھی ہیڈ لائن لگائی کہ ریفرنس واپس ہو رہا ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا سسٹم پر اثر پڑتا ہے، جماعت بدلنے والے اراکین دوبارہ جیت کر آجائیں تو یہ میوزیکل چیئر نہیں؟ یہ تو سسٹم کا مذاق اڑانا ہے جس پر بیرسٹر خالد جاوید نے کہا کہ سپریم کورٹ پارٹی سے انحراف کو کینسر قرار دے چکی ہے ، تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سے انحراف کے بعد ایک شخص کا استعفیٰ دیدینا کافی نہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ استعفیٰ ہی تو نہیں دے رہے ، اس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے ریفرنس ان چند افراد کیلئے لائے ہیں۔ 
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلا نہیں پڑھا جا سکتا، پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے جماعت کے ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، کوئی پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتا تو مستعفی ہو سکتا ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا تاحیات نااہل ہونا چاہئے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کے ساتھ کیسے جوڑیں گے؟ کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں؟ رشوت لینا ثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتا ہے، منحرف رکن اگر کسی کا اعتماد توڑ رہا ہے تو خیانت کس کے ساتھ ہو گی۔ 
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سب سے پہلے خیانت حلقے کی عوام کے ساتھ ہو گی، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بددیانتی ہے، قانونی بددیانتی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہو گا۔ اس پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دئیے کہ ووٹر جس سمٹ میں تیر چلائے وہ کہیں اور چلا جائے، پارٹی سے انحراف ازخود مشکوک عمل ہے۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، آ رٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی، آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف کیلئے عدالتی فیصلہ ضروری ہے، آرٹیکل 63 میں نااہلی دو سے پانچ سال تک ہے، قرض واپس کرنے پر نااہلی اسی وقت ختم ہو جاتی ہے۔ 

مصنف کے بارے میں