ایک اور تمغہ جمہوریت تک؟

 ایک اور تمغہ جمہوریت تک؟

پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 3 اپریل سے 8 اکتوبر ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کا سیاسی دباؤ جیسے جیسے بڑھتا جا رہا ہے اسٹیبلشمنٹ کا رد عمل اتنا ہی سخت ہوتا جا رہا ہے، دونوں فریقین حتمی ٹکراؤ کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جلد الیکشن اس ٹکراؤ کا بھیانک انجام بن سکتے ہیں، ایک چنگاری کسی بھی وقت جنگل کی آگ میں بدل سکتی ہے، عمران خان کی گرفتاری کی غیر سنجیدہ اور ناکام کوشش اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پرگرفتاریوں اور چند کی لاپتگی سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ شہباز شریف حکومت سے ناک کی لکیریں نکلوا کر بھی معائدے پر آمادہ نہیں اورآئی ایم ایف کو مطلوب پاکستان”دوست ممالک“  کی طرف سے اگلے تین ماہ میں پانچ ارب ڈالر کی یقین دہانی کے کوئی آثار نہیں، دس کلو آٹے کی بوری 1300 روپے سے زائد پر مل رہی ہے، مفت آٹے کے حصول کے لئے ہجوم میں چھ سے زائد افراد جان بحق ہو چکے ہیں، ان کی لمبی قطاریں شاید خلا سے بھی نظر آ جائیں، عمران خان پر پچاس سے زائد مقدمات درج ہیں اور درجنوں میں ضمانت یا حفاظتی ضمانت مل چکی ہے، اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ میں خوفزدہ عمران خان کی بلٹ پروف پیشیاں شروع ہیں، عمران خان نے امریکی لابنگ فرموں کے ذریعے امریکہ سے اپنے رابطے بڑھا لئے ہیں، الیکشن تاریخ میں اکتوبر تک توسیع سے پہلے  بظاہرامریکہ اور آئی ایم ایف کو بھی الیکشنز بارے تجسس تھا تھا،عمران خان کھلے میدان میں حکمران اتحاد کو چیلنج کر رہے ہیں اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بند کمروں سے پریس ریلیز کے ذریعے یا بیچاری مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس میں ان کو جواب دے رہے ہیں، شہباز شریف خود کو ابھی بھی محسن نقوی کی جگہ دیکھتے ہیں، دوسری طرف نواز شریف واپس آنے کو تیار نہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو کہہ رہے ہیں کہ پہلے اپنے گناہ کا بوجھ خود ٹھکانے لگائیں، جس کی جوتی اس کے سر، اور پھر چھ سال تک فوج کی سربراہی کرنے والے اب فلموں کی کسی ریٹائرڈ ہیروئن کی طرح سیاسی اداکاروں اور ہدایت کاروں کے ساتھ اپنے ”ناجائز سیاسی تعلقات“ بارے ”ناقابل اشاعت“ سرگوشیاں کر رہے ہیں، ان سرگوشیوں کے جملہ حقوق کے کچھ ٹھیکیدار صحافی و اینکر حضرات سوکنوں کی مانند ایک دوسرے پر جعلی انٹرویوز یا صحافتی ضابطوں کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں -
ادھر عدالتی محاذ پر بھی گھمسان کا رن پڑا ہے، سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کو سستے انصاف کی فراہمی کے لئے ایک آٹا پوائنٹ کی مانند ایک مستقل ہم خیال بنچ بنا دیا گیا ہے، جو پی ٹی آئی کی ہر نئی درخواست کیساتھ کھل جاتا ہے،حالیہ آڈیو لیکس نے بھی کچھ منصفوں کے چہروں سے انصاف کا نقاب نوچ پھینکا ہے جنہوں نے از خود نوٹس کی بجائے از خود ہی بغیر تفتیش و تحقیق کہ ان آڈیوز کو مسترد کرنے کا غیر رسمی اعلان کر دیاہے، کسی مزید لیک شدہ آڈیو کال کی بجائے کھلی عدالت میں ریمارکس کے ذریعے متعلقہ اداروں اور ماتحت عدلیہ کو بھی پیغام دیا گیاہے کہ خبردار جو ان آڈیو لیکس کی طرف رخ بھی کیا ورنہ……
پنجاب یا بظاہر پورے ملک میں عام انتخابات کی نئی تاریخ 8 اکتوبر مقرر ہے، اب پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نگران حکومتوں اور وفاق میں حکمران اتحاد کو کسی بھی طرح سپریم کورٹ سے بچ کر 8 اکتوبر تک خود کو لے کر جانا ہے، مگر دوسری طرف تاثر عام ہے کہ موجودہ عدالتی قیادت نے ستمبر میں ریٹائر ہونے سے پہلے کچھ ایسا کرنا ہے کہ عمران خان کو دو تہائی اکثریت والا الیکشن مل جائے، اسی لئے پارٹی مخالف باغی اراکین اسمبلی کے وزارت اعلی کے الیکشن میں ووٹ شمار نہ کرنے والا فیصلہ بھی آیا تھا، آئین کی شق تریسٹھ اے کی ایسی تشریح سے سپریم کورٹ کے اکثریتی اعتبار سے ہم خیال بنچ نے جو پنجاب میں ”ریجیم چینج“  کی تھی اس نے آج پاکستان کو سیاسی بھونچال سے دو چار کر رکھا ہے، اْس فیصلے سے پرویز الہی کی حکومت بنی اور پنجاب اسمبلی قبل از وقت تحلیل کر دی گئی، پھر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے لئے ایک اور ”نیپی چینج“ آپریشن کیا اور نوے روز میں الیکشن بھی کرانے کا حکم دے دیا، اس پر الیکشن کمیشن نے بطور آئینی ادارہ تاریخ 8 اکتوبر تک لے جانے کا فیصلہ کیا تو پی ٹی آئی اب تیسری بار نیپی بدلوانے سپریم کورٹ کے کسی اکثریتی اعتبار سے ہم خیال بنچ کے آگے درخواستگذار ہے، سپریم کورٹ کے اندر عدالتی حکمران اتحاد کے ہم خیال بنچ کے سامنے اسوقت ایک ”موت کا منظر“ ہے جس میں قاضی فائز عیسی چیف جسٹس ہیں اور عمران خان کہیں نظر نہیں آ رہے یا کسی پکڑے جانے والے گینگ کے ایک رکن کے طور پر سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، جولائی 2018 کے انتخابی گناہوں اور اس کے بعد کے پردے چاک ہو رہے ہیں، ایسے میں کچھ شریکِ جرم منصفوں کا نام بھی سامنے آ رہا ہے جن میں موجودہ ہم خیال بنچ بھی شامل ہے، اب موت کے اِس منظر نامے سے بچنے کا واحد راستہ فوری الیکشن میں نظر آتی دو تہائی اکثریت ہے جس میں قاضی فائز عیسی کو فائز ہونے سے روکنا یا پھر ان کو بے اختیار کرنا بھی شامل ہے، اس کا مطلب نہ صرف خود کو بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ہم خیال اعانت کاروں کی بڑی تعداد کو بھی بچانا مقصود ہے، ہائی کورٹوں میں بھی موجود کچھ لوگ جسٹس فائز عیسی کے اکتوبر میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے سے گھبراہٹ کا شکار ہیں، قاضی فائز نہ ہوئے یا ہوئے تو بے اختیار ہوئے تو باجوہ، ان کے فیض اور دیگر شریکِ جرم پیٹی بھائیوں بارے کوئی کبھی نہ پوچھ سکے گا، یوں خان صاحب جو اس وقت بطور اپوزیشن اقتدار اور اختیار کی قالین کا اونچا ریٹ لگوا رہے ہیں بطور وزیر اعظم اسے پھر سے انتہائی ارزاں نرخ پر بیچنے میں کامیاب ہو جائینگے۔
ان ساری ریشہ دوانیوں میں خان صاحب کو ایک بار پھر اقتدار کی بو آ رہی ہے اور اس کے لئے وہ بھی پانچ مہینے کا انتظار نہیں کر سکتے، شاید پانچ کا ہندسہ یا اکتوبر کا مہینہ ان کے لئے بھی مبارک نہیں، اقتدار کی بو ان کو اْن راستوں پر لے جا رہی ہے جہاں وہ امریکہ اور آئی ایم ایف کو بھی بطور سیڑھی  استعمال کرنے کو تیار ہیں، یہ دونوں عالمی قوتیں عمران خان کی سٹریٹ پاور سے مرعوب لگتی ہیں مگر ایسی سٹریٹ پاور کی حامل پاکستانی سیاسی قیادت کبھی بھی امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے طویل مدتی منصوبوں میں فٹ نہیں ہوتی، عمران خان کی طرف سے امریکہ سے تعلقات کی بحالی کے لئے لابنگ فرم سے معاہدے کی وجہ (صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
سے آئی ایم ایف کیساتھ پاکستان کی ڈیل میں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر نہیں، اب الیکشن کی تاریخ میں اکتوبر تک توسیع امریکہ اور آئی ایم ایف کو جلد فیصلے پر مجبور ضرور کریگی اور اسی حوالے سے ان دوست ممالک کو بھی جنہوں نے پانچ ارب ڈالر کی یقین دہانیاں کرانی ہیں، اس سب کے باوجود اور شاید خان کے دباؤ کی وجہ سے ہی موجودہ حکومت کو بھی بڑی عالمی طاقتوں کے ”ان کہے مطالبات“  کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بظاہر نہ کئے گئے ان مطالبات کا دباؤ اتنا بڑھا کہ ان کی وضاحت کے لئے خود اسحاق ڈار کو بھی بغیر کسی سوال یا مطالبے کے ایٹمی پروگرام متعلق ”ایبسلوٹلی ناٹ“ کہنا پڑا اور یوں امریکہ اور آئی ایم ایف کو وضاحت پر مجبور کیا گیا، عالمی طاقتوں کی ایسی وضاحت کے بعد بھی اب آئی ایم ایف کی ڈیل طے نہیں ہوتی تو پھر ن لیگ نے بڑی ھوشیاری سے اس کی وجہ پہلے ہی بتا دی ہے،”روٹی چاہئیے یا بم“ کی بحث کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس کے بعد اگر عمران خان کے آنے کے بعد آئی ایم ایف کی ڈیل مل جاتی ہے تو پھر سوال اْٹھے گا کہ یہ ایبسلوٹلی یس (absolutely yes) کے بغیر کیسے ممکن ہوا-
پنجاب میں الیکشن کی تاریخ میں توسیع کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی واپسی کی خیالی تاریخ میں بھی اب توسیع ہو چکی ہے - عمران خان اب مزید خالی میدان میں دھاڑتا رہے گا اور ن لیگ اسے مقدمات کے کنکر مار کر خوش ہوتی رہے گی، نواز شریف کو بھی بظاہر چیف جسٹس فائز عیسی کا انتظار ہے جنہوں نے اکتوبر میں ذمے داریاں سنبھالنی ہیں اور جو عوامی تقریبات میں ساتھی ججوں کیطرف سے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کا مذاق اْڑا چکے ہیں، نواز شریف ابھی آتے ہیں تو انکے جیل جانے کے فوراً بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہونی ہے، یوں تو مریم نواز کی بریت کے فیصلے میں واضح ہو چکا کہ نواز شریف کا بھی لندن جائیدادوں سے تعلق ثابت نہیں ہوا اس لئے مریم پر بھی الزام بنتا نہیں تھا اور پھر نیب کی قیادت میں مشرفانہ تبدیلی کے بعد نواز شریف کے حق میں فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل کا بھی زیادہ امکان نہیں مگر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ابھی بھی شاکی ہیں یا اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں، نیب کی مشرّفی قیادت کا اصل امتحان عمران خان کی گرفتاری ہو گا۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے اکثریتی اعتبار سے ہم خیال بنچ میں زیر سماعت نیب ترامیم کیس کی طویل سماعت بھی اس بنچ کی بند مٹھی میں ایک پِن نکلے گرینیڈ کی شکل اختیار کر چکی ہے جو فوری الیکشن کی صورت میں نواز شریف اور ن لیگ پر اچھالا جا سکتا ہے، اگر ترامیم غیر آئینی قرار دی گئی تو نواز شریف تو نہیں مگر ن لیگ یا اسکے حمایتیوں کیخلاف بہت سے مقدمات کی بحالی بم بن کر گرے گی۔ مگر نیب کی نئی مشرفی قیادت نواز شریف کی رہائی پر اپیل نہ بھی کرے تو پی ٹی آئی کیطرف سے ”آئینی درخواست“ اور اس کو سننے والے ”ہم خیال بنچ“ کا راستہ تو کبھی بند ہوا ہی نہیں تھا، تو نواز شریف کی فوری واپسی کی راہ میں عدالتی چیدہ دستیاں ابھی بھی حائل ہیں -
تو جناب ایک طرف سپریم کورٹ نواز شریف کو قانون کی ننگی تلوار دکھا رہی ہے تو دوسری طرف آئینی پیچیدگیوں اور زمینی حقائق کے برعکس جلد الیکشن پلیٹ میں رکھ کر عمران خان کو دے رہی ہے، ایسی کھلم کھلا دھاندلی تو اسلام آباد کے سرکاری سکولوں کے بچوں کے بیچ کھیل کے مقابلوں میں بھی نہیں ہوتی۔ اپنے کالے کرتوتوں پر احتساب سے بچنے کے لئے ملک کو داؤ پر لگانا اور کسے کہتے ہیں۔
ان حالات میں حکمران اتحاد کا سب سے بڑا سیاسی مقصد عوام کو 2018 کے انتخابات سے پہلے اس روز اور بعد میں جنرل باجوہ اینڈ کو کی ان غیر آئینی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا ہے جن کی نتیجے میں عمران خان جیسے سیاستدان کا سیاسی جنم ہوا۔ ایسا کرنا تبھی ممکن ہو گا جب حکومت جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو ایک پریس کانفرنس میں اپنے مشرکہ گناہوں کے اعترافات کے لئے ”قائل“ کرے یا پھر ان پر آئین سے سنگین غداری کا مقدمہ چلائے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اگلے پانچ مہینے گذارنے کے لئے شہباز شریف کی جگہ اپنے کسی ایسے کارکن کو سامنے لائیں جو عمران خان کا زبانی کلامی تو مقابلہ کر سکے۔ اگر نواز شریف یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو پھر عمران خان جیسے فاشسٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی عوام کو اکیلا چھوڑ دیں اور پاپ کارن لیکر لندن کے صوفوں پر بیٹھ کر خاموشی سے اس قوم کا تماشہ دیکھیں اور اس وقت تک کا انتظار کریں جب مریم نواز پاکستان کی دوسری خاتون وزیر اعظم بننے کا حلف اْٹھا کر کسی اور جرنیل کو تمغہ جمہوریت نہیں دے دیتی۔ 
مطیع اللہ جان