اسلامی ٹچ

اسلامی ٹچ

پٹرول 30 روپے مہنگا ہو گیا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملک کو دیوالیہ اور سری لنکا نہیں بننے دیں گے ۔ دراصل عمران نیازی دور میں ملک آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھ دیا گیا۔ اب اس معاہدے پر عمل ہو گا اور فوری ہو گا ورنہ وطن عزیز سری لنکا بن جائے گا۔ عوام یہ بات سمجھ لیں جو فصل آج کٹ رہی ہے یہ عمران خان نے بوئی تھی۔اب آتے ہیں اسلامی ٹچ کی طرف، ملک اسلامی نظریہ پر بنا تھا اس کی اطلاع قوم کو 1960 کے بعد ملی ورنہ ہم نے تو کتابوں میں پڑھا تھا کہ جس طرح گورا ہندوستان سے جا رہا تھا ہم گورے کے بعد بنیے کی غلامی میں نہیں آ سکتے جیسا کہ موجودہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکومت کا سلوک جاری ہے۔ 1947 کو ہندوستان آزاد ہوا مگر کشمیر غلام بن گیا اور یہ غلامی افواج ہندوستان کا کاروبار بن گئی۔ تحریک پاکستان کے وقت شاید ہی کوئی موقر اسلامی سیاسی جماعت پاکستان کے حق میں تھی مگر بن جانے کے بعد بنانے والے جس کسمپرسی میں مالک حقیقی سے جا ملے سب کو علم ہے۔ ایوب و یحییٰ دور میں پکنے والی ہنڈیا کا ڈھکن اٹھایا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ موجودہ پاکستان کو ذلتوں سے اٹھا کر عزت دار اقوام عالم میں لا کھڑا کرنے والے کو سولی چڑھایا، بیٹی کو گولی مار دی گئی، درمیان میں پھانسیوں، کوڑوں، قیدوں، قلعہ بندیوں کی روداد آج کی نئی نسل کے علم میں نہیں ہے۔ سیاسی تحریک کو تحریک نظام مصطفی کا ٹچ اس میں شدت اور جذبہ بھرنے کے لیے دیا گیا اور ایک پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے ساری ریاست کا زور اور زر جھونک دیا گیا مگر تحریک میں بھرا ہوا اسلامی ٹچ انتہا پسندی، ذات برادری، لسانی، علاقائی، نسلی بنیادوں پر قوم کو تقسیم کر گیا۔ سیاست میں نئے خاندان متعارف ہوئے جن میں چودھری برادران، میاں برادران، ہمایوں اختر خان اور نہ جانے کون کون لوگ ہیں مگر میاں نوازشریف 1993 سے اسحاق خان کے خلاف ایک تقریر کرنے کے بعد پیپلز پارٹی مخالف عناصر کے مسلمہ رہنما بن گئے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے کافی بوجھ ان کے کندھوں پر آ چکا تھا جو انہوں نے مشرف دور اور اس کے بعد ایوب، یحییٰ، ضیا، مشرف دور کے تسلسل عمران دور کے نئے پاکستان میں ازالہ کر کے اپنے کندھوں سے اتار دیا۔ ایک خود پسند، نرگسیت پسند، نااہل ترین مگر حسد، بغض، کینہ، مفت بھری، بے وفائی، محسن کشی کا شکار، تقریر و تعریف اور ہر حوالے سے شوقین کو پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا متبادل بنا کر پیش کیا گیا۔ مشرف نے میڈیا کو آزادی نہیں اسٹیبلشمنٹ کا کام آسان کیا، ٹی وی چینلز کی بہار آ گئی جس طرح غریب کو تعلیم سے دور رکھنے کے 
لیے ضیا دور میں پرائیویٹ سکولوں کی بہار آ گئی اور پھر غریب کے گھر علم کی بہار اپنے آپ کو گروی رکھ کر بھی نہ آ سکی۔ ان ٹی وی چینلز کے اینکرز کی صورت میں جعلی تجزیہ کار آ گئے، جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے عمران خان کی کردار سازی اور مخالفین کی کردار کشی کی۔ عمران خان کے قد کاٹھ کا سیاست دان خبریں لگوانے کے لیے واقف ڈھونڈتا تھا، جاوید میر پتہ نہیں پروگرام میں بلاتا ہے کہ نہیں سارا دن انتظار کرتا۔ شروع شروع میں یہ ایک میڈیا ہاؤس کے وزارت عظمیٰ کے نمائندے تھے، بہرحال بات پھیل گئی۔ نیازی کا نفسیاتی تجزیہ بہت ضروری ہے اور اب پوری قوم اس سے واقف ہے۔ ایک چالاک انسان ہے مگر بغض، کینہ، حرص، مفت بھری، بدزبانی، بداخلاقی نہ چاہتے ہوئے بھی کر جاتے ہیں بلکہ جان بوجھ کر بدزبانی کرتے ہیں کہ لوگ مجھے 75 سالہ لڑکا سمجھیں۔ آتے ہیں اسلامی ٹچ کی طرف، اللہ کی پناہ! پروردگار کسی شخص کا انکشاف کیے بغیر اس دنیا سے واپس نہیں بلاتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اس کا سیاسی حربہ ہے، یقین دلانے کے لیے میدان میں ایک مشہور مولوی کو اتارا گیا جو اب تبلیغی جماعت جو کہ درویشوں اور حقیقی عاشقان و غلامان رسول کی جماعت ہے، اس کے قابل ذکر لوگ بھی مولوی صاحب کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ذکر سنتے ہیں۔ نیازی پروڈکشن نے اقتدار کی خاطر سب کچھ کیا، ایوب خان کا نام جعلی ’’ترقی‘‘ کے طور پر، گریٹ بھٹو صاحب کا نام حریت پسند اور خود دار رہنما کے طور پر استعمال کیا۔ اسلام کے کے لیے ارطغرل ڈرامے سے لے کر حقیقی کرداروں کا نام استعمال کیا۔ مخالفین کے لیے شیخ مجیب الرحمن کی طرح میر جعفر نجفی اور میر صادق کے القابات دیئے جبکہ یہ جن کے غدار تھے وہ بھی کوئی اس دھرتی کے بیٹے نہ تھے، بہرحال دھوکہ دہی کوئی بھی کرے قابل نفرت ہے چاہے کرکٹر ماجد خان سے لے کر علیم خان، جہانگیر ترین حتیٰ کہ حقیقی دانشور خواجہ جمشید امام بٹ ہو۔ عمران نیازی کہتے ہیں میں مغرب کو بہت جانتا ہوں جنہوں نے ساری دنیا کو Thank You اور Sorry سکھا دیا، ہم دروازے کے اندر پہلے داخل ہونے پر لڑ پڑتے ہیں مگر گورا پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ کھولے کھڑا ہوتا ہے حالانکہ واقفیت نہیں ہوتی اور شاید آئندہ کبھی ملاقات بھی نہ ہو۔ میں نے یہ مناظر تیس سال پہلے امریکہ میں روزانہ دیکھے۔ مگر عمران نیازی کا ایچی سن کالج، آکسفورڈ یونیورسٹی، کر کٹ کی دنیا، ہسپتالوں کے ماہرین، اعلیٰ ترین فوجی قیادت کی سنگت، یورپ و امریکہ میں قیام کچھ نہیں بگاڑ سکا نہ کوئی درگاہ ہی تربیت کر پائی۔ Thank you اور Sorry سیکھا ہی نہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں رائے ممتاز بابر 22 ویں گریڈ کے پنجاب اسمبلی کے سینئر سیکرٹری کو جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ تین چار دن حوالات میں رہے، موجودہ نا مکمل حکومت نے نہ صرف مقدمہ واپس لیا بلکہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور دیگر لوگوں نے باقاعدہ معافی مانگی کہ رائے صاحب اس زیادتی پر ہم معافی اور معذرت چاہتے ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات نہیں آئی کہ آپ پر مقدمہ بن گیا ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے علم میں ہو مگر معافی میں دیر نہیں کی۔ اس بات کی نشاندہی معروف اینکر اور دانشور جناب گوہر بٹ نے بھی اپنے وی لاگ میں کی۔ اب واپس آتے ہیں اسلامی ٹچ کی طرف تو جناب جن جگہوں میں چوکوں، چوراہوں پر کھمبوں پر ہم فلمی دنیا اور سٹیج اداکاروں اور اداکاراؤں کے بل بورڈ دیکھا کرتے تھے آج ان جگہوں پر مسلکی، مذہبی پرفارمرز کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں لہٰذا اس ملک میں دین یا مذہب کا نفاذ نہیں کاروبار ہوتا ہے۔ لہٰذا مذہب کا ٹچ ضروری ہے۔ آقا کریمﷺ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی آ کر یہ کہے احد(پہاڑ) اپنی جگہ چھوڑ گیا تو مان لینا مگر کوئی فطرت چھوڑ گیا تو یقین نہ کرنا(مفہوم)۔ لہٰذا بندوبست کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ضیاالحق کے بعد لوگ اسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے پر یقین نہیں کریں گے تو عشق رسولؐ کو سیاست میں لے آئے۔ عمران نیازی کی حالیہ اسلام آباد نوٹنکی جس کی اجازت عدالت نے دی، میں قاسم سوری تقریر کرتے ہوئے بزرگ عمران نیازی سے کہتا ہے کہ اسلامی ٹچ بھی دے دیں تو وہ فوراً عاشق رسولؐ بن جاتا ہے اور لوگوں کو رسول اللہﷺ سے عشق اور ہدایت کی بات سناتا ہے۔ یہ مسجد ضرار کے کردار ننگے ہونے تھے سو ہو گئے، حافظ اختر شیرانی ٹی ہاؤس مال روڈ لاہور پر بیٹھے شراب کی پوری بوتل پئے دھت تھے۔ وہ سوشلسٹ خیالات کے حامی تھے، چند شرارتی لڑکوں جن میں ہندو اور سکھ بھی تھے جو اکثر ادھر آیا جایا کرتے تھے، نے ان سے برصغیر کے بڑے بڑے لوگوں اور مذہبی رہنما کے نام لینا شروع کر دیئے وہ ہر ایک کے لیے غلط الفاظ بولتے گئے، ان لڑکوں نے اس دوران میں آقا کریمؐ کا ذکر کر دیا، اس نے بوتل اٹھا کر سیدھی ان کو دے ماری کہ حرامیو! ہم گناہگاروں سے آخری سہارا بھی چھیننا چاہتے ہو۔ جو جو میرے آقا کریمﷺ کا نام اپنے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی فائدے کے لیے استعمال کرے گا خاک چھاننا اس کا مقدر ہو گا۔ میرے آقاؐ، میرے ماں باپ قربان! یہ کیسا ملک ہے جس میں آپ دین اور آپؐ سے عشق کو اسلامی ٹچ قرار دے کر بھکاری اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں