ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی اور پاکستان کی سمال انڈسٹریز

Muhammad Awais Ghori, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, Newspaper, e-paper

پینڈورا لیکس کے بے تاج بادشاہ اور وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے غربت سے بلکتی ہوئی پاکستانی عوام کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا ہے کہ حکومت پاکستان نے پٹرول پر ٹیکس کو صفر کر دیا ہے اور ریاست مدینہ کے بادشاہ کی خاص ہدایت پر عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے سینہ ٹھونک کر انکار کر دیا گیا ہے کہ بس! اب مزید کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ وہ کراچی میں میڈیا کے نمائندوں  سے گفتگو کر تے ہوئے یہ اعلانات فرما رہے تھے اور  خوشی سے ادھ موا ہونے ہی والا تھا کہ خیال آیا کہ دیکھا جائے اب عوام کو پٹرول کتنے روپے فی لیٹر میں مل رہا ہے، ہم نے انٹرنیٹ کی مدد حاصل کی اور ایک پٹرول کمپنی کی ویب سائٹ پر جاکر آج کی تازہ ترین فی لیٹر قیمت جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ابھی تک شوکت ترین کی طرف سے اس انقلابی اقدام کے ثمرات عوام تک پہنچنے شروع ہی نہیں ہوئے اور پٹرول کی قیمت اسی طرح 145 روپے 82پیسے فی لیٹر ہی نظر آرہے تھی۔ دیگر پاکستانیوں کی طرح ہم مثبت سوچ رکھتے ہوئے امیدکرتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے اتنا بڑا پنگا لینے کے بعد عوام کو ضرور پٹرول پرائس کی قیمت میں ریلیف ملے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مشیر خزانہ شوکت ترین اور دیگر معاشی رتنوں کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ آپ معیشت کے بابے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو کیسے درست سمت میں لے کر جانا ہے لیکن اس وقت پاکستان میں معیشت کا جو حال ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں شاید سب سے اہم یہ ہے کہ معاشی بابے پاکستان کی صورتحال کی بہتری کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے صرف ’’کلر بازیاں‘‘ فرمانے میں مصروف ہیں۔
پاکستان اس وقت دنیا کی معاشی رینکنگ میں کس مقام پر ہے یہ تو ہر کسی کو چند کلک کے فاصلے پر میسر ہے، اس معاشی زوال کی وجہ سے ہمیں زبانی رٹ چکی ہے کہ یہ پرانی حکومتوں اور خاص طور پر شریف خاندان کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی بھی پاکستان کی معاشی صورتحال کی خرابی میں اب ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے، جی آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا ہے۔ اپنی بات واضح کرنے کیلئے پاکستان کے کچھ صنعتی شہروں میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا، پاکستان کے اہم صنعتی شہر اور وہاں پر کام کرنے والی سمال انڈسٹریز پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، گوجرانوالہ، گجرات اور فیصل آباد کی مثال لیں تو یہ پاکستان میں سمال انڈسٹری میں اپنی مثال آپ ہے،جہاں پر پنکھے، واشنگ مشینیں، سینیٹری، ٹائلز، پی وی سی اور پی پی آر سی پائپ، سرامکس ، بال وال، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کپڑے ، کنفیکشری  میں ٹافیاں، سنیکس ، وغیرہ کی مینو فیکچرنگ ہوتی ہے ۔ حکومت پاکستان میں جس طرح پٹرول پر زیرو ٹیکس کیا اور اس کے ثمرات 
عوام تک نہیں پہنچے اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان بھر کے مینو فیکچررز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور انہیں زیرو سہولیات فراہم کی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان بڑے اور چھوٹے سکیل کے مینو فیکچررز پاکستان میں بہت سا زرمبادلہ لانے کا ذریعہ بنتے ہیں، جنہیں اپنے یونٹس کیلئے مہنگی گیس مل رہی ہے اور جو اکثر ملتی بھی نہیں ، ٹیکسز کی بھرمار اور بزنس کرنے کیلئے آسانیاں میسر نہیں ہیں ، اس صورتحال کی وجہ سے پاکستانی کی انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے جبکہ چین پاکستان کے تمام مینو فیکچررز کو اب ٹریڈرز بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ کسی بھی ملک کو زیادہ فائدہ مینو فیکچرنگ کی صورت میں ہوتا ہے، آپ چین یا کسی بھی دوسرے ملک سے جاکر مصنوعات تیار کروا کر پاکستان لاکر بیچتے ہیں تو دراصل آپ ٹریڈنگ کر رہے ہیں، آپ مینو فیکچرنگ نہیں کر رہے۔ یہ صریحاً حکومت پاکستان کی نااہلی رہی ہے اور معاشی پالیسیاں بنانے والوں کی ناکامی ہے کہ اگر وہ یہ تمام سہولیات مقامی مینو فیکچررز کو فراہم کرے تو اس سے براہ ر است پاکستان کی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
چین سے آئے تاجر وں نے اس وقت گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں مینو فیکچرنگ یونٹس لگانے شروع کر دئیے ہیں، وہ دھڑا دھڑ پاکستان بھر میں راء مٹیریل کی خریداری میں مصروف ہیں جس کیلئے انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ہر قسم کی مدد میسر ہے ۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ ان مخدوش حالات میں بھی جو مینو فیکچرر پاکستان بھر میں کاروبار کر رہے ہیں وہ چینی تاجروں کے مقابلے میں ٹک نہیں پائیں گے۔ اس نکتے کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ چائنہ سے آپ کئی مصنوعات کی مینو فیکچرنگ کروا سکتے ہیں اور انہیں وہاں سے پاکستان درآمد کرنا بھی اتنا مشکل نہیں ہوتا لیکن ٹائلز اور سرامکس کی امپورٹ ایکسپورٹ مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ یہ وزن میں بھاری ہوتے ہیں تو اب چین کے تاجروں نے خاص طور پر ٹائلز اور سرامکس کے یونٹ پاکستان بھر میں لگانے شروع کردئیے ہیں، پاکستان کے راء مٹیریل کا اس سے قبل بھی اس کا سب سے بڑا خریدار چین ہی رہا ہے۔ 
چین پاکستان میں کپاس کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے، حکومت پاکستان کو یہ نظر آتا ہے ڈالر آرہے ہیں، پاکستان کی ایکسپورٹ کا تھوڑا بہت گراف اوپر جا رہا ہے لیکن  دراصل یہ راء مٹیریل بیرون ملک بھیج کر پاکستان مینو فیکچرر کے پاس مصنوعات کی تیاری کیلئے بچتا کچھ نہیں،سادہ سی بات ہے کہ جب آپ پاکستانی انڈسٹریز کا راء مٹیریل ڈالرز کے عوض بیچ دیں گے تو پھر پاکستان کے مینو فیکچررز اپنی مصنوعات کیسے تیار کریں گے ؟ جبکہ اسی راء مٹیریل سے جب میڈ ان پاکستان مصنوعات تیار کی جائیں گی تو وہ پاکستانی عوام کو سستی میسر ہوں گی ، راء مٹیریل کی جگہ مصنوعات ایکسپورٹ ہوں گی ، زرمبادلہ کے ذخائر میں مانگے ہوئے پیسے کے بجائے محنت کے پیسوں سے اضافہ ہو گا اور روپے کی قدر مضبوط ہو گی، عمران خان کے وعدے کے مطابق پاکستان کو نوکریاں ملیں گے اور پاکستانی مصنوعات میں اضافہ ہو گا، کپاس سمیت کوئی بھی راء مٹیریل جب مقامی مینو فیکچرر کو سستی ملے گی تو اس سے کپڑے کے نرخ عوام کیلئے بھی سستے ہوں گے، برآمدات سے پاکستانی کی معیشت کو بھی فائدہ ہو گا۔
جس صورتحال کی طرف سے نشاندہی کرنے کی سعی کی جا رہی ہے یہ آنے والے وقت میں پاکستانی معیشت کیلئے ایک بہت بڑا بحران پیدا کرنے والی ہے، روحانی حکومت کے معاشی بابے اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہیں لیکن دراصل یہ سب اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے کیونکہ آخر میں جب بھی غریب پاکستانی جیب کی طرف دیکھتا ہے تو اسے قوت خرید سے عاری پاتا ہے، انقلابی پیمانے پر پاکستان کی معیشت بہتر کرنے کا مطالبہ تو بہت دور کی بات ، حکومت صرف پاکستان بھر میں سمال انڈسٹری کیلئے ہی کوئی پالیسی ترتیب دے ڈالے کہ کتنا راء مٹیریل بیچا جا سکتاہے اور کس طرح سے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے ان پاکستانی مینو فیکچررز کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا 
بے زری ، فاقہ کشی ، مفلسی، بے سامانی
ہم فقیروں کے ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے