نئے پاکستان کا کسان

Najam Wali Khan, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, Newspaper, e-paper

ہم شہری بیک گراؤنڈ کے حامل صحافیوں ، اینکروں اور کالم نگاروں کو فصلوں اور کسانوں بارے کچھ زیادہ معلومات نہیں ہوتیں مگر میرا اصول رہا ہے کہ کوئی بھی موقف سٹیک ہولڈرز سے مکالمہ اوربحث کئے بغیر اختیار نہیں کرتا۔ حکومتی دعوے یہ ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں کسان کو گنے سمیت دیگر فصلوں کی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمت ملی ہے مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے اوراس کی وجہ حکومتی کارکردگی سے کہیں زیادہ مس مینجمنٹ میں چھپی ہوئی ہے جس نے آخر کار یہی نرخ مہنگائی کی صورت لوٹا دئیے ہیں۔ گنے کی فصل کی کاشت اور فروخت میں ایسی بدانتظا می رہی کہ کاشتکاروں نے گنا کاشت کرنا ہی چھوڑ دیا۔ گذشتہ برس جب گنے کی فصل بہت کم ہوئی تو شوگر ملوں کو اپنے اپنے ضلعے چھوڑ کر دوسرے ضلعوں سے جا کر گنا خریدنا پڑا اورمہنگا خریدنا پڑا کیونکہ انہیں اپنی شوگر ملیں بھی تو چلانی تھیں۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگی چینی کو جواز مل گیا اور اس وقت جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں یہ گندم کی کاشت کے آخری دن ہیں۔
 نواز شریف دور میں ڈی اے پی کھادکی بوری کا ریٹ اڑھائی ہزار سے ساڑھے تین ہزار کے درمیان رہا مگر اس مرتبہ جب کسان گندم بو رہا تھا تواسے دس ہزا ر روپوں میں بھی ڈی اے پی نہیں مل رہی تھی۔ مجھے بہت سارے کسانوں نے بتایا کہ انہوں نے پونے گیارہ ہزار کی بوری لی کہ جہاں زمین کچھ کمزور ہے وہاں ایک ایکڑ میں دوبوری ڈی اے پی پڑ جاتی ہے۔ حکومت نے یہ کاشت کے انتہائی دنوں میں یہ چور بازاری کھل کر ہونے دی اور جب یہ دن جا رہے ہیں تو مختلف جگہوں پر چھاپے مار کے بوریاں برآمد کی گئیں اور جب کسان کی ضرورت کا وقت نکل گیا ہے تو اب آٹھ ہزار چار سو روپے کے سرکاری ریٹ پر دی جا رہی ہے۔ میں نے اپنی حکومتی دوستوں سے اس بارے پوچھا تو وہ مجھے کسان کارڈ کی طرف لے گئے اور بتایا کہ کسان کارڈ پر انہیں ایک ہزار روپے سستی کھاد ملے گی۔ کسانوں کا جواب تھا کہ کسان کارڈ نو سے دس فیصد کسانوں کو بھی نہیں ملا اور اگر تین برس پہلے جو بوری تین ہزار کی تھی اب اسے نو ہزار کا دیا جا رہا ہے تو اس میں سے ایک ہزار روپے کم ہوگئے تو کون سا ریلیف مل گیا؟
کسانوں کا کہنا تھا کہ بات صرف ڈی اے پی نہیں ہے بلکہ پہلے بجلی کا یونٹ ساڑھے پانچ روپے کا ہوا کرتا تھا، اس وقت بھی جس یوریا کی بوری کا ریٹ ساڑھے سترہ سو روپے ہے وہ بلیک میں اڑھائی ہزار روپوںں سے کم میں نہیں مل رہی، فصل بونے سے کاٹنے تک کے لئے مشینری ٖڈیزل پر چلتی ہے اور اس کا ریٹ دوگنا ہوچکا ہے۔ ہمارے بیج کا یہ عالم ہے کہ ایوب ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ابھی تک پندرہ برس پرانا بیج دے رہا ہے جس کی طاقت اور جان نکل چکی ہے۔ اب یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کیا کرے جب اس کے پاس ریسرچ کے لئے فنڈز ہی نہ ہوں اور جو زمینیں ریسرچ کے کام کے لئے ہوں انہیں لیز پر دے کروہاں پٹھے ( چارہ) لگائے جا رہے ہوں۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ آنے والے دنوں میں گندم کا بحران پیدا ہونے والا ہے کیونکہ بہت ساروں نے بغیر ڈی اے پی کے ہی گندم کاشت کردی اور جب آپ بغیر کھاد کے فصل کاشت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ چھ سے بارہ من کم پیداوار کے لئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ اس سے پہلے حکومت فلور ملوں کو گندم کی فراہمی کے حوالے سے عجیب وغریب پالیسی اختیار کر چکی ہے۔ ابھی حال ہی میں فلور ملز نے ہڑتال کی جو دھمکی دی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ لاہور، گوجرانوالہ اور راولپنڈی تک کی فلور ملز کو کہا جا رہا تھا کہ وہ ڈیرہ غازی خان سے گندم اٹھائیں۔ وہ کچھ روز تک وہاں سے گندم اٹھاتی رہیں مگر پھر چیخ اٹھیں کہ اس سے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ میں نے اکنامک رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر اشرف مہتاب سے اس کی وجہ پوچھی کہ صوبے بھر کی گندم ڈیرہ غازی خان کیوں پہنچا دی گئی تو وہ ہنس پڑے اور بولے کہ ڈیرہ غازی خان وہ جگہ ہے جہاں دوسرے صوبوں کی سرحدیں پنجاب سے ملتی ہیں اور وہاں سے سمگلنگ بہت آسان ہوجاتی ہے ورنہ اس کاکیا جواز کہ پورے صوبے کی گندم وہاں پہنچ جائے۔ 
اب کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر اخراجات یہی رہے تو کسانوں سے سرکاری ریٹ پر گندم خریدنے کے لئے آپ کو پولیس کی مدد لینا پڑے گی ورنہ یہ گندم کسان کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور کم پیداوار کی وجہ سے تین ہزار روپے من فروخت ہو گی۔ مجھے کسان کو پیسے دینے میں میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ یہ پیسے کس کی جیب سے نکل کر کسان کے پاس جائیں گے تو وہ ہمارا عام غریب آدمی ، مزدور اور محنت کش ہو گا۔ طاہر رزاق گجر کہہ رہے تھے کہ مزدور تو محنت کرنے کی وجہ سے روٹیاں بھی زیادہ کھاتا ہے اور میں ان کی بات سنتے ہوئے جمع تفریق کر رہا تھا کہ اگر اٹھارہ سو کی گندم خرید کر آٹے کا بیس کلوکا تھیلا گیارہ سو روپوں میں بیچا جا رہا ہو تو تین ہزار کی گندم میں اس کا ریٹ آسانی سے دو ہزار روپوں تک پہنچ جائے گا یعنی عام غیر معیاری آٹا سو روپے کلو ہوجائے گا اوربات صر ف کسانوں کے بحران تک محدوود نہیں رہے گی۔ ابھی دو ، تین برسوں میں ایک نیا کام بھی شروع ہوا ہے کہ مارکیٹ میں پندرہ کلو کا بیگ بھی آ گیا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ قانون سرکار کو دس اور بیس کلو کے آٹے کے تھیلے کے نرخ مقرر کرنے کا پابند کرتا ہے اوراس میں پانچ، سات یا پندرہ کلو کا کوئی ذکر نہیں جس کے نتیجے میں پندرہ کلو کا تھیلا ہی فائن آٹے کے نام پر مہنگا بیچا جاتا رہا ہے اور دکاندار خود کچھ زیادہ منافعے کے لئے اس کی مارکیٹنگ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ بیس کلو والا سرکاری ریٹ کا آٹا کون سا کھانے والا ہے، پیٹ میں درد کر دے گا، آپ یہ لے جائیں، یہ اچھا ہے، بہتر ہے ، معیاری ہے۔
پروپیگنڈہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں کسان بہت خوش ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں دیہی پس منظر والا ایک وزیراعلیٰ آ گیا ہے ْاور اسے تاریخ کے بہترین ریٹس مل رہے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ تاریخ کے بلند ترین اخراجات کا بھی سامنا ہے ، کسان رہنما کہہ رہے تھے کہ یہ ان کے لئے بدترین دور ہے کہ کسی جگہ کوئی کنٹرول ، کوئی گورننس نظر ہی نہیں آ رہی۔ سب کو آزاد چھوڑا ہوا ہے یعنی بکریوں والے کے دور میں شیروں کو آزادی ہے کہ وہ جس کو چاہیں ، چیریں پھاڑیں، کھائیں پئیں آنند رہیں۔ مجھے باقی شعبوں پر کالم لکھتے اور پروگرام کرتے ہوئے جس احساس کا سامنا ہوتا ہے کہ یہ میاں منظور وٹو اور عارف نکئی کے دور سے بھی کمزور حکومت ہے وہی احساس کسانوں کے معاملات بارے آگاہی لیتے ہوئے بھی ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی اتنی تیزی کے ساتھ کمانے میں مصروف ہے کہ جیسے قیامت آنے والی ہے اورا س کی کمائی کے یہی دن ہیں۔ ہم پنجاب اور لاہور کے بیک گراؤنڈ والے صحافیوں اور شہریوں کو بتایا جاتا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نااہل اور کرپٹ حکومت رہی ہے مگر جب میں کسانوں سے ملتا ہوں، سرکاری ملازمین سے ملتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے پیپلزپارٹی کا دور سب سے بہتر رہا ۔
حکومت کی نااہلی پر بات کرتے ہوئے کچھ اپوزیشن کا ذکر بھی ہوجائے اور اسمبلیوں کا بھی، جن میں عوام کے حقیقی مسائل پر کوئی بحث نہیں ہوتی، کوئی شور نہیں مچایا جاتا او رکوئی فیصلے نہیں ہوتے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اور اسمبلیاں اس وقت صرف طاقت کے حصول کے کھیل میں مگن ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کسان، گندم، آٹے  جیسے نان ایشوز پرباتیں کہاں کی جاسکتی ہیں،یہ کن کی نظر میں اہم ہیں۔ چلیں ایک اور ضائع کالم سہی، ایک اور لاحاصل کوشش سہی، محض اپنا ضمیر مطمئن کرنے کے لئے کہ میں نے اپنافرض ادا کر دیا۔