روٹی مہنگی اور عزت سستی

روٹی مہنگی اور عزت سستی

جب انسان میں مادیت پرستی حاوی ہو جائے تو انسان میں انسانیت مر جاتی ہے اُس کے آگے انسان کی اوقات کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔موجودہ صورتحال سے یہی اندازہ ہو رہا ہے جیسے پاکستان کی عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ہر سیاست دان اقتدار میں آنے سے پہلے چاند پہ گھر بنانے کے خواب دکھاتا ہے اور پھر اقتدار میں آتے ہی آسمان سے دھکا دے کر منہ کے بل عوام کو گراتا ہے۔اب بھی اقتدار کی پارٹی اقتدار میں آنے سے پہلے یوں ہی نیا پاکستان اور چاند پہ گھر بنانے کے مترادف خواب دکھا رہی تھی۔جب سے پی ٹی آئی کی گورنمنٹ آئی اس 3سالہ دور میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
ڈالر ریکارڈ 175روپے کی سطح پر پہنچنے کی وجہ سے کوئی نیا قرضہ لیے بغیر راتوں رات 1656ارب قرضہ اور 66ارب روپے کی سود کی ادائیگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں جو 2018میں بنگلہ دیش ،بھارت،اور خطے کے دیگرممالک کے مقابلے میں کم تھیں اب سے زیادہ ہو چکی ہیں۔اس مہنگائی کے طوفان میں عام آدمی کی کیا حالت ہے اس کو جانتے بوجھتے ہوئے دیکھا ان دیکھا کیا جا رہا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان  اقتدار میں آنے سے پہلے ایک بات کہا کرتے تھے کہ مجھے دکھ ہوتاہے جب ماں مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچے کو خوراک پوری نہیں دے پاتی اب مجھے یہ بات یاد دلانی پڑ رہی ہے کہ اب اُن مائوں پہ رحم کیوں نہیں آرہا نہ  وزیر اعظم کو نہ کسی وزیر مشیر نے مہنگائی کم کرنے کا مشورہ دیا۔
جنوری 2020میں پاکستان میں 23%بھا رت میں13%اور بنگلہ دیش میں 15%کے حساب سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق کم آمدنی والے گھر انے میں گذشتہ سال آمدنی میں17%کمی ہوئی۔جبکہ کھانے پینے کی اشیاء کے اخراجات میں25%اضافہ ہوا۔ایک اوسط آمدنی والی فیملی جو 2020میں اپنی آمدنی کا 30%کھانے پینے پر خرچ کرتی تھی وہ اب 2021 میں اپنی آمدنی کا50%سے زائد روزمرہ کی کھانے پینے پہ خرچ کرنے پہ مجبور ہے۔
میں ان اعدادو شمار کی بات کرتے ہوئے ایک بات یاد دلانا چاہتی ہوں کہ ہماری 80%سے زائد آبادی خط غربت کی لکیر تلے زندگی گزار رہی ہے مگر اُن 80%لوگوں کو اگنور کیا جا رہا ہے۔میں آج اس کالم کی وساطت سے اُن 80%لوگوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتی ہوں کہ آئندہ الیکشن میں اپنے اپنے حلقے میں صیح امیدوار کا چنائو کرے۔
میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک بات مزید یاد دلاتی چلوں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ اس ملک کو مہنگائی کی بلند ترین سطح پہ لے جا کر اس ملک کو صومالیہ بنا دینا چاہتے ہیں۔میں نہایت ادب و احترام سے کہتی ہوں کہ وزیر اعظم صاحب آنکھیں کھولیے اور غور کیجیے،اس وقت 43 ممالک میں سے ہمارا ملک مہنگائی میں چوتھے نمبر پر آچکا ہے۔مجھے تو خوف ہے اُس دن کا کہ جب اس ملک میں شاید عزت سستی اور روٹی مہنگی ہو جائے گی اور وہ وقت زیادہ دور نہیں اور اگر ہم اعدادو شمار کو دیکھیں تو شاید آچکا ہے۔ 
پیٹرول سستا ہو یا مہنگا عام آدمی کی قوت خرید اور آمدنی پہ ہوتا ہے۔اب مزدور کی مزدوری کا موازنہ کرتے ہیں۔امارات میں مزدور کی مزدوری یومیہ دیہاڑی پاکستانی روپے میں3500روپے ہے۔اور وہاں پیٹرول کی قیمت  117روپے فی لیٹر ہے۔جبکہ سعودی عرب میں یومیہ 3000روپے وہاں پیٹرول کی قیمت 107روپے ہے۔چین میں دیہاڑی 2000 ۔پیٹرول کی قیمت وہاں205روپے ہے،امریکہ میں دیہاڑی10000روپے جبکہ پیٹرول  کی قیمت 165روپے ہے۔بھارت میں دیہاڑی 2000روپے اور پیٹرول کی قیمت 210روپے ہے۔بنگلہ دیش میں دیہاڑی 1800روپے ،اور پیٹرول 175 روپے فی لیٹر ہے۔اور پاکستان میں 800روپے یومیہ جبکہ پیٹرول138روپے فی لیٹر ہے۔ان اعدادوشمار سے صاف طاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت یومیہ دیہاڑی سب سے کم ہے تو لوگ کیسے اس موجودہ مہگائی کا روز سامنا کرتے ہونگے اور کیسے وہ اپنی فیملی کی روزمرہ ضروریات زندگی کو پورا کرتے ہونگے ۔اور اگر گھر میں کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو کیسے اُس کو دوا ملتی ہو گی کیونکہ اب بیماری کی حالت میں اس ملک میں ادویات بھی غریب کی دسترس سے باہر ہو چُکی ہیں۔اور مہنگائی میں جتنی تیزی سے ہمارا ملک سفر کر رہا ہے اگر یونہی تیزی سے مہنگائی کے سفر پہ رواں دواں رہا تو ڈر ہے کہیں ٹاپ پہ نہ آجائے۔اگر مہنگائی کے اس چنگل سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں آئی ایم ایف سے پیچھا چھڑانا ہوگا ورنہ قریب ہے وہ دن کہ ہمارا ملک اُن ممالک میں شمار نہ ہو جائے جہاں روٹی مہنگی اور عزت سستی ہو۔