کپتان کا آئین کی حکمرانی کا اعادہ

کپتان کا آئین کی حکمرانی کا اعادہ

سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک اسی صورت مستحکم بنیادوں پر ترقی کر سکتا ہے جب ہمارے ہاں آئین و قانون کی بالادستی ہو۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی جمہوری اداروں کے استحکام کے وسیع تر تناظر میں ملکی سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ عوام کو سستے اور  فوری انصاف کی فراہمی کی بہت اہمیت ہے کیونکہ آئین کی حکمرانی اور قانون کے بغیر کسی مہذب معاشرے کے جمہوری، سیاسی اور سماجی ارتقا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ماضی میں جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھانے کی بار بار کوششیں کی گئیں، طالع آزماؤں نے جمہوریت، عدلیہ اور آئین پر شب خون مارنے کے ریکارڈ قائم کئے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان تو وجود میں آ گیا لیکن نئے ملک کو چلانے کے لئے کوئی آئین نہ دیا جا سکا۔چنانچہ 1947ء سے 1973ء تک پاکستان کسی آئین اور اس کی روح کے بغیر چلتا رہا۔ درمیان میں چودھری محمد علی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک آئین بنانے کی کوشش کی گئی لیکن پہلے پاکستانی آرمی چیف جنرل ایوب خان نے 1958ء میں اس آئین کو اپنے بوٹوں تلے کچل دیا۔ اگلے 11 برس تک چودھری محمد علی کا آئین فوجی بوٹوں تلے کراہتا رہا۔ پاکستان کے دوسرے آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے ایک عبوری آئین کا مسودہ تیار کیا تھا جسے جماعتِ اسلامی کے امیر مرحوم میاں طفیل محمد نے عین اسلامی قرار دیا مگر 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہو گیا اور اسلامی آئین کی مہورت نہ ہو سکی۔ پاکستانی فوج طویل عرصے تک حکمرانی کرتے کرتے جب تھک گئی تو مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو خصوصی جہاز بھیج کر بیرونِ ملک سے واپس منگوایا گیا اور انہیں سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار منتقل کیا گیا۔ بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے 1973ء میں پہلا متفقہ آئین دیا لیکن صرف چار سال بعد تیسرے پاکستانی آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ ضیاء الحق اور اس کے شریک جرنیلوں نے اپنی چھڑی کو ہی آئین کا درجہ دیا اور ملک کی عدلیہ نے اس چھڑی کی رٹ کو قائم رکھنے کے لئے مکمل وفاداری کا ثبوت دیا۔ 12 اکتور 
1999ء کو ایک آرمی چیف جنرل مشرف نے ایک بار پھر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ ماضی کی طرح ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ایک غاصب کے اقتدار کو سندِ جواز بخشنے میں دیر نہیں لگائی اور انہیں یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ اپنی ضرورت کے تحت آئین میں ترمیم کرنے کے مجاز ہیں۔ 
یہ بھی دیکھنے اور سوچنے کا وقت ہے کہ جمہوریت کو پختگی کا موقع ہی نہیں ملا، آمروں نے آئین کو کاغذ کے چند حقیر ٹکڑوں سے تشبیہ دی۔ یہ بھی قومی سیاست کے سیاہ ترین ادوار تھے جب جمہوریت کے منہ پر کالک ملنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کے جمہوری اور مسلمہ عدالتی راستے مسدود کئے گئے۔ آئین اور قانون کی اس کی روح کے مطابق آزادی سے یقیناً ہماری قومی زندگی، عدالتی نظام، سیاسی تنظیمِ نو اور سماجی تعمیر و تطہیر میں اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن خود جمہوری حکمران بھی آئین کو اتنی اہمیت نہیں دیتے رہے ایک موقع پر خود سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ آئین ان کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں ہوتے ہیں تو جمہوریت پر زور دیتے رہتے ہیں لیکن جونہی وہ اقتدار سے بے دخل ہوتے ہیں تو پھر غیر جمہوری عناصر کے ساتھ سودے بازیاں شروع کر لیتے ہیں۔ عمران خان کی اکثریتی حکومت کو جس طرح ختم کرا کر ایک 13 پارٹیوں کے ملغوبے کو حکومت دلا دی یہ کہاں جمہوریت کی خدمت تھی۔ اپنے دوسرے دورِ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد انہوں نے بل کلنٹن کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر جنرل مشرف سے جس طرح سودے بازی کی اور سعودی عرب کے محلات میں جا بسے وہ سیاسی لوگوں کا شیوہ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح ایک بار پھر انہوں اپنے تیسرے دورِ اقتدار کے بعد دیگر عناصر کے گٹھ جوڑ سے لندن جا پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور ادھر سے ملکی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔  
آج بھی اسی طرح آئین و قانون سے کھلواڑ کا چلن عام ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے آتے ہی ایک بار پھر سے این آر او لے کر اپنے تمام کیسیز ختم کرا لئے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتی اتحادیوں کی مرحلہ بہ مرحلہ کچھ لو اور کچھ دو کی بازی چل رہی ہے۔ سوال صاحبِ اقتدار سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے یہ بھی ہے کہ ان کی سوچ کی کوئی سمت بھی ہے یا ساری کی ساری سیاست کا کاروبار کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہی جاری رہے گا۔ کوئی نظریہ، کوئی سیاسی پختگی، کوئی سنجیدگی آخر کب تک احتساب کے نام پر سودے بازی جاری رہے گی اور عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟ یہ کیسا انصاف اور احتساب ہے جو اقتدار  بچانے کی خاطر ہمیشہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک فیملی کا یا سیاست دان کا نہیں پوری قوم کا المیہ ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں کسی نے جرم کیا ہے تو وہ سزا بھگتے۔اگر کسی نے احتساب کو انتقام بنایا ہے تو وہ بھگتے۔ یہ کیسا نظام ہے جو صرف مفادات اور سودے بازی کے گرد گھومتا ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے اہم مسئلہ اداروں کی تشکیل اور استحکام ہے۔ جمہوری اداروں کے استحکام کے بغیر ساری باتیں رومانوی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بھوک، افلاس اور بیماری پہلی قومی ترجیح ہوتے ہیں، لیکن جب ادارے مضبوط ہوں، تو ان بنیادی عوامی مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے اور کوتاہی، کمزوری اور غفلت برتنے والوں اور بد عنوانوں کا احتساب ممکن ہوتا ہے۔ ہمیں معاشی نمو کے لئے منصوبہ سازی کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے استحکام پر بھی توجہ دینا ہو گی۔  
آج اگر ہم نے آئین کو اس کی روح کے مطابق آزادی نہ دی تو موجودہ جمہوری نظام کا برقرار رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس وقت جو سب سے اہم چیز ہے وہ ہے اداروں کے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنانے کی ہے۔آئین کے تقدس کو ہر حال میں مقدم رکھنے کی جمہوری روایت آج رکھی جائے گی تو کل کوئی مہم جو اور طالع آزما اسے چھیڑنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ اگر عدالتی فیصلوں کی تاریخ کے اوراق سے نظریہ ضرورت کے امکانات کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے اور عدلتیں اتنی آزاد ہوں کہ کسی قسم کے سیاسی، انتظامی اور حکومتی دباؤ، غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور مصلحتوں کو قطعی درخورِ اعتنا نہ سمجھے، اس کے بعد ہی ملک میں نہ سیاسی اور آئینی بحران سر اٹھا سکیں گے، نہ جمہوریت اور عدالتی عمل کو کئی نقصان پہنچا سکے گا اور جب سیاسی رواداری عام ہو گی، آئینی حکمرانی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی تو جمہوری اور آئینی ادارے حقیقی معنوں میں مضبوط ہوں گے۔

مصنف کے بارے میں