بھارت میں کسان متنازعہ بل ،احتجاج شدت اختیار کر گیا 

بھارت میں کسان متنازعہ بل ،احتجاج شدت اختیار کر گیا 

مودی نے بھارتیوں کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دئیے ،ہنگامے شروع 

نئی دہلی: بھارت کی کئی ریاستوں میں کسانوں کے احتجاج کے باوجود صدر نے زراعت کے حوالے سے تین متنازع بلوں کی منظوری دے دی ہے۔

 تفصیلات کے مطابق ملک کی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اتوار کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے شدید احتجاج کے باوجود حکومت نے قوانین کے مسودوں کو منظور کروالیا۔ بھارت میں تین متنازع قوانین کسانوں کے لیے بڑی تبدیلی لے کر آئے ہیں اور ان کی وجہ سے ملک کی پارلیمان میں شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی ہے، ان پر شروع ہونے والا احتجاج اب ملک کے مختلف شہروں اور دیہات کی سڑکوں پر آگیا ہے۔

 بھارتی کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے ان کا زرعی اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار متاثر ہوگا جبکہ بڑے ریٹیلرز قیمتوں کو کنٹرول کریں گے۔ کسانوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ صدر رام ناتھ کووند کی جانب سے ان قوانین کی منظوری سے کسانوں میں مزید افراتفری پھیلنے کا امکان ہے۔ ان قوانین کی منظوری کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت پنجاب میں ایک اہم سیاسی حمایتی سے محروم ہوگئے ہیں، حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس نے کسانوں کی جانب سے ان بلوں کے خلاف مظاہروں کی حمایت کی تھی۔

 پارلیمان کے مون سون اجلاس میں بی جے پی حکومت نے ملک میں زراعت کے متعلق تین بلوں کو منظور کیا تھا، حزب اختلاف، خاص طور پر کانگریس نے ان قوانین کی شدید مخالفت کی تھی اور انہیں کسان مخالف قرار دیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے زراعت کے شعبے میں کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاح ہے لیکن حزب اختلاف کے ساتھ بی جے پی کی اتحادی پارٹی اکالی دل نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور ان کی ایک وزیر اور اکالی رہنما ہرسمرت کور بادل نے تو اس معاملے پر گزشتہ دنوں اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا۔ بلوں سے متعلق وزیراعظم نریندر مودی نے ٹویٹ کیا تھا کہ بڑھی ہوئی ایم ایس پی کسانوں کو مضبوط کرے گی اور ان کی آمدنی کو دگنا کرنے میں مدد کرے گی۔